One Unite in Pakistan 1956
ون یونٹ ایک انتظامی اور سیاسی اسکیم:- تھی جو 1955 میں پاکستان میں متعارف کروائی گئی تھی۔ اس اسکیم کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں (پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان) کو ملا کر ایک واحد صوبہ بنا دیا گیا، جسے “مغربی پاکستان” کہا گیا، جبکہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کو ایک الگ یونٹ کے طور پر برقرار رکھا گیا۔
ون یونٹ کا مقصد ملک کے دونوں حصوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) کے درمیان آبادی اور نمائندگی کے لحاظ سے توازن پیدا کرنا تھا، کیونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی اور وہ نمائندگی کے لحاظ سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ تاہم، اس اسکیم نے مغربی پاکستان کے مختلف صوبوں کے اندر تناؤ اور عدم اطمینان کو بڑھا دیا، اور آخرکار 1970 میں ون یونٹ کا خاتمہ کیا گیا۔
ون یونٹ کیوں ناکام ہوا؟
ون یونٹ کا خاتمہ کب ہوا؟
ون یونٹ کا خاتمہ 1 جولائی 1970 کو ہوا۔ اس تاریخ کو ون یونٹ اسکیم کو منسوخ کر دیا گیا، اور مغربی پاکستان کے مختلف صوبے (پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان) دوبارہ اپنی اصل حیثیت میں بحال ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی اور مغربی پاکستان میں صوبائی خودمختاری کو بحال کیا گیا۔
ون یونٹ کے مقاصد کیا تھے؟
ون یونٹ کا مقصد پاکستان کے دونوں حصوں، مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی اور انتظامی توازن قائم کرنا تھا۔ اس کے اہم مقاصد میں شامل تھے:۔
- سیاسی استحکام: مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ایک یونٹ میں ضم کر کے مشرقی پاکستان کے مقابلے میں سیاسی طاقت اور توازن پیدا کرنا، کیونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی اور اس کے پاس زیادہ نشستیں تھیں۔
- انتظامی کارکردگی: صوبوں کی تعداد کم کر کے حکومتی اور انتظامی امور کو آسان اور زیادہ موثر بنانا۔
- قومی اتحاد: مغربی پاکستان کے مختلف صوبوں اور عوام کو ایک مشترکہ سیاسی یونٹ کے تحت متحد کرنے کی کوشش کرنا۔
- وسائل کی تقسیم: وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ترقی کے منصوبوں کو بہتر طریقے سے نافذ کرنا۔
تاہم، ون یونٹ اسکیم پر بہت سی تنقید ہوئی اور اسے مختلف صوبوں میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اس نے علاقائی اور ثقافتی اختلافات کو نظرانداز کیا، اور آخرکار یہ اسکیم ناکام ہو گئی۔
ون یونٹ کیوں ناکام ہوا؟
ون یونٹ کے اثرات کیا تھے؟
کیوں ناکام ہوا؟
ون یونٹ اسکیم کئی وجوہات کی بنا پر ناکام ہوئی:۔
- علاقائی اور ثقافتی اختلافات: مغربی پاکستان کے صوبے (پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان) مختلف ثقافتی، لسانی اور تاریخی پس منظر رکھتے تھے۔ ون یونٹ کے تحت انہیں زبردستی ایک انتظامی یونٹ میں ضم کرنے سے ان کے مقامی حقوق، ثقافت اور شناخت کو نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں شدید مخالفت اور ناراضگی پیدا ہوئی۔
- عدم مساوات اور طاقت کا ارتکاز: ون یونٹ اسکیم کے تحت سیاسی اور انتظامی طاقت زیادہ تر پنجاب کے پاس مرکوز ہوگئی، جس سے دیگر صوبوں کو احساس محرومی ہوا۔ یہ احساس بڑھتا گیا کہ پنجاب کو دیگر صوبوں پر فوقیت دی جارہی ہے، جو کہ مختلف علاقوں میں بے چینی کا باعث بنا۔
- نمائندگی کا مسئلہ: مشرقی پاکستان، جو آبادی کے لحاظ سے زیادہ تھا، ون یونٹ کے ذریعے سیاسی طور پر کمزور ہوا، کیونکہ اسے مغربی پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر رکھا گیا، جس سے اس کی نمائندگی اور سیاسی اثر و رسوخ کم ہوگیا۔
- سیاسی مخالفت: ون یونٹ کے قیام کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے اس کی مخالفت کی، کیونکہ وہ اسے صوبائی خودمختاری کے خلاف سمجھتے تھے۔ صوبائی حقوق کے حامیوں نے اس اسکیم کو غیر منصفانہ اور جابرانہ قرار دیا۔
- مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک: مشرقی پاکستان میں ون یونٹ اسکیم کے باعث بڑھتی ہوئی بے چینی اور عدم اطمینان نے بنگالی قوم پرستی کو تقویت دی، جس کا اختتام 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام پر ہوا۔
- انتظامی مسائل: ون یونٹ کے تحت بڑے پیمانے پر بیوروکریسی اور انتظامی نظام میں مسائل پیدا ہوئے، جنہوں نے نظام حکومت کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
ان وجوہات کی بنا پر ون یونٹ اسکیم ناکام ہوگئی اور بالآخر 1970 میں اسے ختم کر دیا گیا، جس کے بعد مغربی پاکستان کے صوبے دوبارہ اپنی اصل حیثیت میں بحال ہوگئے۔
ون یونٹ کی مخالفت
ون یونٹ کا انجام
ون یونٹ کی مخالفت کیوں؟
ون یونٹ کی مخالفت مختلف وجوہات اور مختلف گروہوں کی جانب سے کی گئی، جو اسے غیر منصفانہ اور جابرانہ اسکیم سمجھتے تھے۔ اس مخالفت کی اہم وجوہات اور مختلف گروہوں کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات درج ذیل ہیں:
1. صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی:۔
- سندھ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ون یونٹ اسکیم ان کے صوبوں کی خودمختاری اور تاریخی شناخت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ ان صوبوں کے لوگ سمجھتے تھے کہ ون یونٹ کے تحت ان کے مقامی حقوق اور وسائل کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
2. پنجاب کی بالادستی:۔
- ون یونٹ کے قیام کے بعد، سیاسی اور انتظامی طاقت کا زیادہ تر حصہ پنجاب کے پاس مرکوز ہو گیا، جس سے دیگر صوبوں میں احساس محرومی بڑھا۔ سندھ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان کے رہنماؤں نے اس بات کی مخالفت کی کہ پنجاب کو دیگر صوبوں پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔
3. ثقافتی اور لسانی اختلافات:۔
- مغربی پاکستان کے صوبے مختلف ثقافتی اور لسانی شناختیں رکھتے تھے۔ ون یونٹ کے تحت ان اختلافات کو نظرانداز کرنے سے ان علاقوں میں بے چینی اور ناراضگی پیدا ہوئی۔ سندھ، بلوچستان، اور خیبر پختونخوا کے عوام نے محسوس کیا کہ ان کی زبان، ثقافت، اور روایات کو دبایا جا رہا ہے۔
4. مشرقی پاکستان کی مخالفت:۔
- مشرقی پاکستان، جو کہ آبادی کے لحاظ سے زیادہ تھا، نے بھی ون یونٹ کی مخالفت کی۔ مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ اس اسکیم کے ذریعے ان کی سیاسی طاقت اور نمائندگی کو کمزور کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں بے چینی بڑھی۔
5. سیاسی جماعتوں کی مخالفت:۔
- سندھ ہاری کمیٹی، خدائی خدمتگار تحریک، اور دیگر علاقائی جماعتوں نے ون یونٹ کی سخت مخالفت کی۔ یہ جماعتیں اس اسکیم کو جمہوری اصولوں کے خلاف سمجھتی تھیں اور اسے طاقت کے ارتکاز کا ذریعہ قرار دیتی تھیں۔
6. ون یونٹ کے خاتمے کی تحریک:۔
- 1960 کی دہائی میں مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے ون یونٹ کے خاتمے کی تحریک چلائی۔ ان میں شیخ مجیب الرحمان اور خان عبدالولی خان جیسے رہنما شامل تھے، جنہوں نے صوبائی خودمختاری کے لیے آواز اٹھائی۔
7. انتظامی مسائل اور عدم اطمینان:۔
- ون یونٹ کے تحت ایک بڑا انتظامی ڈھانچہ قائم کیا گیا تھا، جس نے بیوروکریسی میں پیچیدگیاں پیدا کیں اور عام لوگوں کے مسائل بڑھا دیے۔ اس سے عوام میں بھی عدم اطمینان پیدا ہوا۔
8. ون یونٹ کی مخالفت کا نتیجہ:۔
- ان تمام وجوہات کی بنا پر، ون یونٹ اسکیم کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر 1970 میں اسے ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد مغربی پاکستان کے صوبے اپنی اصل حیثیت میں بحال ہو گئے، اور صوبائی خودمختاری کو تسلیم کیا گیا۔
ون یونٹ کی مخالفت نے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہ واقعہ ملک کی صوبائی خودمختاری اور وفاقی نظام کی تشکیل میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
0 Comments