سیاست کی معروف ترین اصلاحات میں خواب بھی شامل ہے ۔ ایک خواب تو وہ ہوتا ہے جو ۔ انفرادی سطح پر دیکھا جاتا ہے ۔ جو فرد دیکھتا ہے ۔ اور دوسرا خواب وہ ہوتا ہے جو اجتماعی سطح پر دیکھا جاتا ہے ۔ جو پوری قوم پر محیط ہوتا ہے ۔ اور یہ خواب پوری قوم دیکھتی ہے ۔ بلکہ پوری قوم کو یہ خواب دیکھایا جاتا ہے ۔ اسی لیے اسے قوم سے وابستہ کر کے دیکھا، سمجھا اور پُکارا جاتا ہے ۔

امریکن ڈریم

امریکہ کو نو آبادیاتی نظام کے پنجے سے نکال کر بھر پور ترقی دینے کا خواب دیکھا گیا اس نے دنیا بھر کی نسلوں کو ایک نئی دنیا کی طرف متوجہ کیا ۔ امریکہ میں جس تبدیلی اور ترقی کا سوچا گیا اور خاکہ بنایا گیا اُسے دنیا امریکن ڈریم کے طور پر یاد کرتا ہے شناخت کرتا ہے ۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ایک صدی لگ گئی ۔

خواب کی تعبیر مل جانے کے بعد خواب کو پوچھتا کون ہے؟

امریکی خواب کا معاملہ یہ ہے کہ اب اُسے میلے کپڑوں کی طرح اُتار پھینکنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ امریکہ کو جو کچھ بھی حاصال کرنا تھا وہ حاصل کر چکا ہے ۔ مگر اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں اس کا بھی امریکہ کو اور امریکی عوام کو احساس ہے ۔ اس کا ادراک ہے ۔ مگر انٹرنشنل سیاسی میدان میں امریکہ ن آج بھی نمبر ون پر ہے ۔

یورپی طاقتیں صدیوں تک انفرادی حیثیت میں بہت کچھ کرتی رہی ہیں ۔ اور دنیا بھر میں اکھاڑ ، پچھاڑ کی سیاست کرتی رہی ہیں ہیں ۔ 20 یں صدی کے وسط میں جب نو آبادیات کا زور ٹوٹا تو یورپی طاقتوں کو مل کر کچھ کرنے کا خیال آیا تاکہ گرتی ہوئی ساخت اور بڑی گراوٹ سے محفوظ رہا جا سکے ۔

یورپین ڈریم

یورپین ڈریم اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ، اور یورپین برادری کو دنیا والوں کو متعارف کروانے کے لیے یورہین یونین بنائی گئی ۔ یورپین مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے آج یورپی یونین میں تبدیل ہو چکی ہے ۔

مگر آج یورپی یونین کو بھی مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ا برطانیہ یورپ سے اپنی راہ الگ کر چکا ہے ۔ اور اشارے مل رہے ہیں کہ برطانیہ شمالی یورپ کو ساتھ ملا کر ایک الگ بلاک بنانے جا رہا ہے ۔

چینی خواب

اب عالمی سیاست میں چینی خواب نے انٹری دی ہے ۔ جبکہ آل ریڈی دنیا میں ، 3 بڑی قوتوں نے 3 الگ الگ خواب دیکھا چکے ہیں یا دیکھ رکھیں ہیں ۔ یعنی ۔نمبر 1 ، امریکہ کا خواب ۔ نمبر 2 ۔ یورپ کا خواب ۔ نمبر 3 ۔ برطانیہ کا خواب ۔ یہ 3 کے ہوتے ہوئے ، چین کا خواب کیسے پروان چڑھے گا ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اُ ن بڑی قوتوں کو چائنیز خواب کی آمد سے ، مشکلات کا سامنا کرنا پرے گا یا ان تینوں خواب کو کمزور پڑتا ہوا دیکھ کر چینی قوم اور چینی قیادت نے اپنا خواب دنیا کی مارکیٹ میں لانچ کیا ہے ۔

خوابوں کا تصادُم

اس وقت معاملہ تہزیبوں کے تصدُم کی منزل سے گزرتا ہوا خوابوں کے تصادُم تک آگیا ہے ۔ امریکی اور یورپی اور برطانوی خواب کی شکل میں دنیا کو جو سبز باغ اور سہانے خواب دیکھائے گئے تھے ، ان کی تازگی باسی ہوچکی ہے ۔ اور رنگ پھیکے پڑ چکے ہیں ۔

اندر سے ان سبہوں کے خواب کا حال بُرا ہوتا جا رہا ہے ۔ ان کی قیادتوں نے جو قومی خواب دیکھا تھا اس پر مستقل طور پر چل نہ سکے اور انہوں نے ایسی ایسی حرکتیں اور کارنامے کی ہیں کہ اقوام عالم کی نیندیں اُڑ گئی ہیں ۔ اور اب ان کے اپنے لوگ ان کے ان اقداموں سے غیر مطمعین ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔

ان سبہوں نے اپنے اپنے حساب سے اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کئی خطوں کی انٹ سے انٹ بجادئے ہیں ۔

یورپ مدت تک اقوام عالم پر مظالم کے پہاڑ توڑتا رہا ، اور دنیا کے کئی خطوں کو تاراج کیا ۔۔۔ برطانیہ اور فرانس اور پُرتگال اور اٹلی نے افریقہ کو جی بھر کے لوٹا اور پھر مشرق وسطیٰ کے علاوہ ایشیا کے کئی ممالک کو بھی نہیں بخشا ۔

ایشیا، اور بحرالکاہل اور جنوبی مشرقی ایشیا کے خطے میں یورپی طاقتوں نے غیر معمولی مظالم ڈھائے اور شدید استحصال کا بازار گرم رکھا ۔

اعلی تعلیم اور فنون کے حوالے سے پیش رفت کو ان لوگوں نے اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ، انہوں نے نہایت ہی بے دردی سے اور شرمناک انداز سے استعمال کیا اس کے نتیجے میں متعدد ممالک انتہائی پس ماندگی سے دو چار ہوئے ۔ وہ خطہ زندگی کی دور میں بہت پیچھے رہ گیا ۔ آج وہاں غربط، افلاس، بیماری اور جہالت اپنے عروج پر ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے یہی لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ۔

چین نے جو خواب دیکھا ہے اُسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کوئی بھی ایسا طریقہ اب تک اختیار نہیں کیا ۔ جس کے نتیجے میں خرابیاں پھیلیں اور دنیا چینی قیادت کو بُرا بھلا کہنے پر مجبور ہو ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چینی قیادت بہت سنبھل کر چل رہی ہے ۔ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے ۔ تاکہ اپنی جیت ہو ۔ مگر کسی کی کُلی ہار نہ ہو یا کم از کم ایسا تاثر نہ اُبھرے ۔

چینی قیادت کی تیاری

خواب کے حوالے سے چین کا اصل مقابلہ یورپ سے ہے ۔ امریکہ اب تک ہارڈ پاور کی انٹر نشنل راہ پر چلتے رہنے کو ترجیح دے رہا ہے ۔ یہ ہر معاملے کو طاقت کے زریعے نمٹانے کی کوشش کر رہا ہے بین الاقوقمی حوالے سے ہتھ دھرمی پر تُلا ہوا ہے ۔ امریکی قیادت کے خیال میں قومی خواب کو مکمل شکست اور شرمندگی سے بچانے کا اب یہی ایک طریقہ بچا ہے ۔ دھونس دھمکی، لالچ، سیاست اور ڈیپلومیسی سے جس قدر کام چلایا جاسکتا ہے چلاو ۔

یورپ کی چاہت

دوسری طرف یورپ چاہتا ہے کہ نرم قوت اور نرمی سے اور حکمت عملی سے کام لیا جائے ۔ علوم و فنون میں پیش رفت برقرار رکھ کر اُبھرتے ہوئے ممالک اور خطوں سے اشتراک عمل کیا جائے ۔ اور اقتصادی سرگرمیوں کو بھر پور کامیابی کی بنیاد بنایا جائے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چینی قیادت گزشتہ 30 سالوں سے گامزن ہے ۔ کام کر رہی ہے ۔

جنوبی ایشیا میں اور افریقہ میں چین نے غیر معمولی توجہ دیا ہے ۔ اور مسلسل دے رہے ہیں ۔

دنیا کے سیاسی میدان میں 4 قوموں کےخواب

دنیا کے میدان میں 4 قوموں کے 4 خواب ہیں ۔ دنیا 3 خواب کو اچھی طرح دیکھ چکی ہے اور بھگت چکی ہے؟ اور اب چوتھا خواب چین کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے ۔

دنیا ان چاروں خواب کا اچھی طرح جائزہ لے کر یہ طے کر سکتی ہے کہ اب اُسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے ؟

چاروں گھر ہیں آپ کے جدھر چاہے چلےجائیے

ہر اُبھرتی ہوئی معیشت کے سامنے چار واضع آپشن موجود ہے ؟ جدھر چاہے چلےجائِے؟ ان تینوں پاورز کو دنیا بار بار آزما چکی ہے ۔ اب چوتھے کی باری ہے ۔ کیا چینی خواب اس قابل ہے کہ اس پر متوجہ ہوا جائے ۔ یا بھروسہ کیا جائے؟ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔

چین انتہائے تحمل کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے

چینی قیادت ماضی کے 3 پاور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، انتہائے تحمل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔ چین اپنے عظیم تر قومی مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز کی حکمت عملی کو اختیار کیا ہوا ہے ۔ اپنایا ہوا ہے ۔ اور اپنے پورانے پروسی دوستوں کو بھی آسرا دیتا رہتا ہے ۔

تہزیبوں کے تصادُم کا غلبہ ؟

اب تک مغرب و مشرق کے تہزیبوں کے تصادُم کا غلبہ رہا ہے ۔ اور یہ سو کالڈ غلبہے کا معاملہ بھی اہل مغرب ہی نے اُٹھایا ہوا ہے ۔

سوال دو تہزیبوں کے تصادُم کا نہیں بلکہ زاتی مفادات کا ہے ۔

اہل مغرب نے پانچ صدیوں تک اس دنیا کا شدید استحصال کیا ۔

آج یورپ وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے ماضی کا راستہ بدل کر اپنے قومی خواب کو چکنا چور ہونے سے بچانے کی کوشش تیز کردی ہیں ۔

تیکھی سوچ Lateral Thinking

آج یورپ تیکھی سوچ اپنا رہی ہے ۔ تیکھی سوچ یہ ہےکہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اُسے قبول کیجئے اور اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اُسے پچھاڑنے کی کوشش کیجیے ۔ جس کو موقع پرستی بھی کہتے ہیں ۔ یعنی حالات کو دیکھ کر کام کیجیے ۔

مگر شروع دنوں سے ہی چین اس تیکھی سوچ والے میدان میں اُترا ہوا نظر آرہا ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان خوابوں کے تصادم میں کون جیت کر نمبر ون پر آتا ہے اور کون نمبر 2 پر آتا ہے ۔ یہ دل چسپ مقابلہ شروع ہو چکا ہے ۔ اور یہ کب تک چلتا ہے ۔ صبر تحمل کا حامل چینی خواب کس نمبر پر آتا ہے ؟ یہ صبر آزمہ انتظار ہے؟؟


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *