مسلم لیگ [ن] کی مخلوط حکومت کو 2022 اور 2023 کی وفاقی بجٹ بنانے میں کون کون سی دوشواریوں کا سامنا کرنا پر سکتا ہے؟
مسلم لیگ [ن] کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو اقتصادی، معاشی ، اور سیاسی محاذ پر اس وقت بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ جس میں ملک کا بڑھتا ہوا تجارتی اور اقتصادی خسارہ ہے اور تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے زخائر ہیں ۔ اور پاکستانی روپووں کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر و قیمت ہے۔ اور ان ہی وجوہات کی بنا پر ملک میں مہنگائی برھتی جا رہی ہے ۔
سال 2022-2023 کا بجٹ پیش کرنے کا چیلنج
مسلم لیگ کی مخلوط حکومت ایک طرف آئی ۔ ایم ۔ ایف سے صرف ایک ارب ڈالر وہ بھی قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات، یا جدوجہد ، کر رہے ہیں ۔ وہ بھی کڑی شرائط کے ساتھ ۔ یعنی انسانی ضرورت کی تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ یعنی ملک میں مہنگائی اور بڑھاو ۔
اور دوسری جانب نئی حکومت کو 2022-2023 کا وفاقی بجٹ بھی پیش کرنے کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اور یہ کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے چیلنج سے کم نہیں ہے ۔ کیوں کہ ان کو عوام کے پاس جانا ہوتا ہے ۔
جون، جولائی 2022 کے مہینے میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے
وفاقی بجٹ نیےمالی سال 2022-2023 کا آغاز جولائی کے مہینے سے ہوتا ہے ۔حکومت وقت کی جانب سے بجٹ پیش کرنے کی تیاری ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے ۔ جب پاکستان کا مالیاتی خسارہ تاریخ کے بلند ترین ستح پر ہے ۔
اقتصادی اور معاشی ماہرین کے تجزئیے کے مطابق ب2022
اس سال کا بجٹ کا خسارہ 3400 ارب روپیے کے بجائے 500 ارب روپیے سے زیادہ تک پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ اور اسی خسارے کے ساتھ اگلے مالی سال 2022 -2023 کا بجٹ بنانا حکومت کے لیے کوئی عام سی بات نہیں ہے بلکہ بہت مشکل اور بڑا چیلنج بن رہا ہے ۔
عوام پر اس بجٹ کا کیا اثر پر سکتا ہے؟
مسلم لیگ [ن] کی کالیشن گورنمنٹ کو اس بڑے بجٹ 2022-2023 کو بنانا پڑے گا تو اس سے پاکستان کے ترقیاتی اخراجات ہو یا دفاعی اخراجات ہو یا عوامی مسائل کے حل کرنے کے اخراجات ہو یا عوامی ریلف کی فراہمی کے اخراجات ہو یا دیگر سبسیڈی کی فراہمی ہو یا کسی قسم کی بحالی کا پروگرام ہو ان سبہوں پر اس کا اثر پڑے گا ۔ ان پروگراموں پر عمل کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا ۔
عوام کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے
کالیشن گورنمنٹ کے آئی- ایم – ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں ۔ کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک نے 2021-2022 کی اگلی قسط ابھی تک ادا نہیں کر سکی ہے ۔
۔
سال 2022-2023 کے لیے بجٹ بنانے میں بڑا چیلنج درپیش ہے
مسلم لیگ [ن] کی کالیشن گورنمنٹ کو 2022-2023 کا بجٹ بناتے وقت آمدنی اور اخراجات میں بے پناہ بڑھتا ہوا مالی خسارہ دیکھائی دے رہا ہے ۔ اس کا خسارہ اس سال کے آخر تک 500 ارب سے زائد تک پہنچنے کا امکان ہے ۔
ملازمت کی فراہمی
اقتصادی و معاشی ماہرین کے مطابق مسلم لیگ [ن] کی کالیشن گوورنمنٹ کو ملکی خسارے کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام کی معاشی آمدنی کو بھی بڑھانے کی ضرورت پڑے گی ۔ملک میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جانے چاہیے تاکہ ملک سے بے روزگاری کی شرح کو کم کیا جا سکے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ملکی پیداواری عمل میں اضافہ بھی کیا جا سکے ۔ اور عام عوام کی فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہونا چاہیے ۔اور کرنے کی ضرورت ہے ۔
آئی ایم ایف سے نجات کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا
جو مالی خسارہ ملک کو درپیش ہے اور آئیندہ بھی آتا ہوا نظر آرہا ہے اس کے لیے حکمرانوں کو اپنے زاتی اخراجات کم کرنے ہوںگے ۔ نہیں تو نہ وہ حکومت کر پایں گے اور نہ ہی عوام ان کو حکومت کرنے دیں گے ۔ اس سوشل میڈیا سہولت کی وجہ سے عوام اب با شعور ہو رہی ہے ۔عوام کی جان کاری بہت بڑھ گئی ہے ۔ اب یہ کل کا پورانا پاکستان نہیں ہے۔ عوام جانتی ہے کہ آئی – ایم – ایف سے نجات کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا ۔
آج پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے 7000 ارب سے زائد کے ٹیکس اکٹھا کرنے لیے حکم اور آرڈر دیا جارہا ہے ۔ یہ ٹیکس عوام دے گی اور وہ کیسے ہوگا ۔ یعنی عوام مزید مہنگائی کے چکی تلے پسے گی ۔ ملک میں عوام کی آمدنی سے زیادہ مہنگائی ہے۔ ملک خسارے میں جا رہا ہے اور خسارہ مزید بڑھنے کی امید ہے ۔ ۔
اور دوسری جانب ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اور اس پر سود کی ادائیگی بھی بڑھ رہی ہے ۔ اور آج تو حال یہ ہے کہ اصل رقم سے زیادہ سود کی ادائگی ہے۔
عدم توزن کا بجٹ
ملکی ترقیاتی بجٹ کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ ملک کی حفاظت کے لیے اور اس کو قائم و دائم رکھنے کے لیے دفاعی اخراجات کے لیے بھی خاطر خوہ پیسوں کی ضرورت ہے ۔ ملک کی انفرا اسٹرکچر بنانے اور چلانے کے لیے بجٹ درکار ہے ۔ جس سے معاشرے کی نظام زندگی معمول پر رہتی ہے ۔ اور اگر انفرااسٹرکچر مضبوط نہ ہوا تو ملک بد امنی کا شکار ہو جسکتا ہے ۔ اور پھر بیرونی اور اندرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا ۔ اور اس طرح عوام غریب اور حکمران امیر ہوتے چلے جایے گے ۔
آج ملک اور عوام کی فی کس آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہے ۔ یعنی خسارہ ہی خسارہ ۔ ایک حساب کتاب کے مطابق ملک کی آمدنی 6 کھرب روپیے ہے اور خسارہ 6 کھرب روپیے ہے ۔ اور اس وقت ملک کو درہیش سب سے بڑا مسلہ مالیاتی خسارے کا ہے ۔ اور اس خسارے کے ساتھ 2022-2023 کا بجٹ بنانا اور پیش کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ اور اب ایسے عدم توازن ادائگی کے ساتھ سال 2022-2023 کا نیا بجٹ بنانا حکومت کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہوگا ۔
‘
مہنگائی کی شرح 14 فیصد سے زائد ہو چکی ہے
پاکستان میں مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح چودہ فیصد کے لگ بھگ ریکارڈ کی گئی۔ حکومت کی جانب سے پٹرول تیل مصنوعات کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر اضافہ ہوا ہے اس سے مہنگائی کی شرح میں بےپناہ اضافہ ہوا ہے ۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح 16 سے 17 فیصد تک جا سکتی ہے۔
موجودہ حکومت کے لیے مہنگائی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس سے نمٹنے کے لیے اسے بجٹ کی تیاری میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ نے کہا ہے کہ مہنگائی ابھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت نے پٹرول و ڈیزل پر سبسڈی تو دی تھی لیکن اس نے اس کے لیے بجٹ مختص نہیں کیا جس کا منفی اثر یہ ہوا کہ اس نے ملک کے مالیاتی خسارے کو بڑھا دیا۔
انھوں نے کہا پٹرولیم مصنوعات میں سبسڈی کا خاتمہ ایک مشکل فیصلہ قرار دیا ہے ۔ تاہم اس کے ساتھ دنیا بھر میں اجناس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کا اثر پاکستان میں مہنگائی کی صورتحال پر بھی پڑا پے اور اس نے پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو بڑھایا۔
آج مہنگائی حکومت کے لیے دوسرا بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے ۔کیونکہ بجٹ بنانے کے لیے حکومت کو پیسے درکار ہیں اور ان پیسوں کا ذریعہ آمد بین الاقوامی ادارے ہیں۔
حکومت کا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوتا ہے تو اس کے لیے کچھ چیزوں کی جیسے بجلی و گیس اور پٹرولیموغیرہ کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا اور عام افراد کے لیے مسائل بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔
حکومت کی جانب سے تیس روپے فی لیٹر قیمت بڑھانے کے بعد جلد ہی پٹررولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا ۔ جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اور زیادہ اضافہ ہہوگا۔
آئی ایم ایف ٹیکس محصولات کا ہدف 7255 ارب روپے کرنے کا کہہ رہا ہے جسے پورا کرنے کے لیے حکومت کو ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا پڑے گا اور اضافی ٹیکس لگانا پڑے گا ۔
’اب یہ اضافی ٹیکس کن افراد اور کاروباری شعبوں پر لگے گا، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں مختلف لابیوں کا اثر و رسوخ حکومتوں پر رہا ہے اور پاکستان مسلم لیگ نون پر کاروباری اور تاجر برادری کا اثر بہت زیادہ ہے۔ اب حکومت اضافی ٹیکسوں کے مسئلے سے کیسے نمٹے گی کہ وہ بجٹ بھی تیار کر لے اور آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ ٹیکسوں کا اضافی بوجھ نہ ڈالے۔‘
تاہم حکومت کے پاس مہنگائی سے نمٹنے کا کوئی قلیل ذکر پلان نظر نہیں آتا کیونکہ اس کے پاس فسکل اسپیس یعنی مالی طور پر اتنی استعداد اور گنجائش نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو سہولت فراہم کر سکے۔
تجارتی کھاتوں کے بڑھتے ہوئے خسارے کا چیلنج
پاکستان کو اس وقت بڑھتے ہوئے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے کا سامنا ہے اور اس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت دباؤ ہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو بلند ترین سطح دو سو روپے کی حد سے آگے پہنچ چکا ہے۔
پاکستان کا تجارتی خسارہ پہلے دس ماہ میں لگ بھگ چالیس ارب ڈالر ہے جب کہ پہلے نو ماہ میں جاری کھاتوں کا خسارہ تیرہ ارب ڈالر سے زائد ہے۔
یہ خسارے بلاشبہ بہت بڑے چیلنج کی صورت میں حکومت کو درپیش ہیں تاہم امید کی جاتی ہے کہ پاکستان کو ان شعبوں میں ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں سے فنانسنگ مل جائے گی کیونکہ دنیا ایک ایسے ملک کو ان حالات میں نہیں چھوڑ سکتی کہ جو ایٹمی قوت ہو اور دیوالیہ ہو جائے۔
ملک کی ترقیاتی بجٹ اور ملکی دفاعی اخراجات میں اضافہ اور دفاعی اخراجات میں اضافہ
ملک کو جہاں دوسرے چلینجز کا سامنا ہے وہاں حکومت کے لیے خسارے کے بجٹ کے ساتھ ساتھ دیگر ترقیاتی بجٹ اور دفاعی اخراجات کے لیے بھی پیسے نکالنا ہے ۔
ماہرین کے مطابق سب سے بڑا چیلنج اس سلسلے میں اخراجات پر قابو پانا ہو گا۔ اس وقت موجودہ حکومت مخلوط حکومت ہے اور اتحادی چاہیں گے کہ ان کے تجویز کردہ منصوبوں کے لیے زیادہ ترقیاتی فنڈ رکھے جائیں تاہم دوسری جانب آئی ایم ایف سے معاہدے کی وجہ اخراجات پر قابو پانے کے لیے دباؤ ہوگا۔
پانچ ہزار ارب روپے سے زائد کا خسارہ سامنے آ رہا ہے اور اگلے سال ملکی آمدن اور اخراجات کے بعد جو پیسے بچتے ہیں ان سے قرضوں کی ادائیگی کی جا سکے گی اور ترقیاتی بجٹ اور دفاعی اخراجات پورا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے جن کے لیے پھر اُدھاڑ لینا پڑے گا ۔
0 Comments