مسجد للّہ کا گھر ہے ۔ دلوں کا سکون ہیں۔ جس نے اللّہ کے گھر کو آباد کیا اللّہ اس کے گھر کو آباد کریگا انشاء اللّہ تعلی۔
مساجد کو اللہ کا گھر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے مساجد کو اپنی طرف خود منسوب کیا ہے، ارشاد ہے:۔
وَ اَنَّ الْمَسَاجِدَ للهِ.بے شک مساجد اللّہ کی ہیں۔
اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود مساجد کو بیوت اللہ (یعنی اللہ کے گھر کا) نام دیا ہے، جیسا کہ مسلم شریف کی روایت ذیل میں ہے:
“عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : “. وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلاَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ”. ( مسلم رقم الحديث: 2699 ) بمع اردو ترجمہ
ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللّہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللّہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللّہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللّہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اللّہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں مگر ان پر سکینت (اطمینان و سکون قلب) کا نزول ہوتا ہے اور (اللّہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللّہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا۔‘‘
جب کہ مدرسہ کی نسبت نہ اللہ رب العزت نے رسولِ اکرم صلی اللّہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے اور نہ ہی خود رسولِ اکرم صلی اللّہ علیہ وسلم نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، لہذا مدرسہ کو اصطلاحی معنی میں نبی کا گھر کہنا درست نہیں۔ فقط واللّہ اعلم
نماز پڑھنے کا مقصد خدا کی یاد کو تازہ کرنا ہے، (سورۃ طہ 14:20 )۔ نماز کے عمل میں انسان کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ خدا کے قرب کو حقیقی معنوں میں محسوس کرسکتا ہے، (سورۃ العلق19:96)۔
نماز پڑھنے کے باوجود زندگی میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی، تو اس کی چند ممکنہ وجوہات اور حل ہو سکتے ہیں؟
نماز ایک عادت؟ نمازیوں میں زہن کہاں رہتا ہے؟ وضوء کے زریعے نماز میں دیہان کا موقع ملتا ہے؟ نماز کے زریعے زندگی میں تبدیلی کیسے؟ نماز انسان کو امراضِ قلب سے محفوظ رکھتی ہے۔
نمبر -1️⃣ نماز کو محض عادت کے طور پر ادا کرنا
اگر نماز صرف ایک رسمی عمل بن چکی ہے اور دل و دماغ اس میں حاضر نہیں، تو اس کا اثر زندگی پر کم ہوگا۔ نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
نمبر- 2️⃣ قرآن اور اذکار پر غور و فکر کی کمی
نماز میں پڑھی جانے والی آیات اور اذکار کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ جب آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ اللہ سے کیا مانگ رہے ہیں، تو اس کا اثر گہرا ہوگا۔
نمبر – 3️⃣ نماز کے بعد کے اعمال
نماز کا اصل مقصد صرف رکوع و سجود نہیں بلکہ زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ اگر نماز کے بعد بھی جھوٹ، بددیانتی، غصہ، یا دوسروں کے حقوق کی پامالی جاری رہے، تو نماز کا حقیقی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
نمبر- 4️⃣ دعا اور تعلق باللّہ
نماز کے دوران اور بعد میں اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی زندگی میں بہتری لے آئے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
“نماز مومن کی معراج ہے۔”
اس لیے نماز کو اللہ سے گہرا تعلق بنانے کا ذریعہ بنائیں۔
نمبر – 5️⃣استقامت اور صبر
تبدیلی وقت کے ساتھ آتی ہے، فوری نتائج کی توقع نہ کریں۔ مستقل مزاجی کے ساتھ اخلاص سے نماز پڑھتے رہیں، اللہ ضرور برکت عطا کرے گا۔
نمبر- 6️⃣ معاشرتی سماجی اور عملی زندگی میں بہتری
نماز کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔ اگر نماز کے بعد بھی رویے میں بہتری نہیں آ رہی، تو خود سے سوال کریں:
- کیا میں دوسروں سے اچھے اخلاق سے پیش آتا ہوں؟
- کیا میں رزقِ حلال کماتا ہوں؟
- کیا میں والدین، دوستوں اور ساتھیوں سے حسنِ سلوک کرتا ہوں؟
نتیجہ
اگر نماز کو محض ایک رسم کے بجائے اللّہ سے تعلق جوڑنے کا ذریعہ بنایا جائے، اس کے معنی پر غور کیا جائے اور اسے عملی زندگی میں نافذ کیا جائے، تو زندگی میں ضرور تبدیلی آئے گی۔
اللہ ہم سب کو نماز کے حقیقی فوائد حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آمین! 🤲۔
نماز کے زریعے اچھی عادت کیسے؟
نماز کو صرف ایک فرض کے طور پر ادا کرنے کے بجائے، اگر اسے شعوری طور پر اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے، تو یہ نہ صرف عبادت رہتی ہے بلکہ ہماری شخصیت اور عادات کو بہتر بنانے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔
نماز کے ذریعے اچھی عادتیں اپنانے کے طریقے
نمبر۔ 1️⃣نماز پابندی اور ڈسپلن
نماز وقت کی پابندی سکھاتی ہے۔ اگر آپ نماز کو مقررہ وقت پر ادا کرنے کے عادی بن جائیں، تو زندگی میں وقت کی قدر کرنا سیکھ جائیں گے۔ اس سے باقی کام بھی وقت پر کرنے کی عادت پڑے گی۔
نمبر 2- 2️⃣ پاکیزگی اور صفائی
نماز کے لیے وضو اور طہارت ضروری ہے، جو صفائی ستھرائی کی عادت پیدا کرتی ہے۔ اگر ہم نماز کے ساتھ ساتھ اپنے کپڑوں، گھر، اور دل کو بھی صاف رکھنے کی عادت بنا لیں، تو زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔
نمبر- 3️⃣بُردباری اور تحمل
نماز انسان کو صبر اور سکون سکھاتی ہے۔ اگر غصہ آئے تو وضو کر کے نماز پڑھیں، طبیعت میں نرمی آ جائے گی۔ یہی تحمل اور بردباری ہمیں دوسروں سے اچھا برتاؤ سکھاتی ہے۔
نمبر- 4️⃣شکر گزاری کی عادت
نماز میں اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے، جیسے سورہ فاتحہ میں “الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ” (سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) پڑھتے ہیں۔ اگر ہم روزانہ پانچ وقت اللہ کا شکر ادا کریں، تو زندگی میں مثبت سوچ پیدا ہوگی۔
نمبر – 5️⃣ ایمانداری اور سچائی
نماز برائیوں سے روکتی ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
“بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔” (سورہ العنکبوت: 45)
اگر ہم نماز کی روح کو سمجھیں، تو ہماری عادات میں سچائی، دیانت داری، اور اچھے اخلاق شامل ہو جائیں گے۔
نمبر- 6️⃣فوکس اور یکسوئی
نماز میں دھیان قائم رکھنے کی کوشش سے ہماری توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ یہی فوکس زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی کارآمد ہوتا ہے، جیسے پڑھائی، کام، یا روزمرہ کے فیصلے۔
نمبر – 7️⃣ بہتر تعلقات اور حسن اخلاق
اگر ہم نماز کے ذریعے عاجزی اور صبر سیکھیں، تو دوسروں سے اچھے تعلقات رکھنا آسان ہو جائے گا۔ ہمیں معاف کرنے اور دوسروں کے ساتھ نرمی برتنے کی عادت ہو جائے گی۔
نتیجہ
اگر نماز کو دل سے ادا کیا جائے اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے، تو یہ ہماری شخصیت میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہے۔
“نماز صرف ایک عبادت نہیں، بلکہ ایک تربیت بھی ہے!” 🌿✨
0 Comments