STANDING TOGETHER AGAINST HATE۔ birth of hate in the history۔
ظلم اور محبت کا آپسی تعلق:۔
ظلم اور محبت کا آپس میں تعلق بہت قدیم ہے: ظلم ایک اندھیرا ہے تو محبت ایک روشنی۔ جب روشنی زیادہ ہوجائے تو اندھیرا چھٹ جاتا ہے اور اگر روشنی یعنی محبت کم ہوجائے تو اندھیر یعنی ظلمت بڑھ جاتا ہے۔ تاریخ انسانیت نے ہمیں سیکھایا ہے کہ ظلم و زیادتی اور محبت و اُنسیت کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جہاں ظالم ظُلم کرتا نظر آتا ہے وہاں مظلوم ظلم سہتا نظر آتا ہے۔
تبقاتی ظلم و ناانصافی کا نظام:۔
سماج میں تبقاتی ظُلمت کا نظام قائم ہے: غریبی امیری کا نظام، آقا اور خادم کا نظام۔ مالک اور غلام کانظام، چھوٹے اور بڑے کا نظام، کمزور اور طاقتور کا نظام، رنگ نسل کی بنیاد پر نفرت کا نظام، مذہب اور سیاست کی بنیاد پر نفرت کرنے کا نظام۔ ظلم و زیادتی کا یہ نظام ہر دور میں ہر حال میں مختلف شکلوں میں نظر آیا ہے اور آئیندہ بھی شکلیں بدلتا نظر آئے گا۔ ظلم و زیدت ناانصافی کا بازار آج بھی گرم ہے کل بھی گرم تھا۔ بس شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ ظلم اور محبت دو الگ چیز ہے۔
ظلم اور محبت آگ اور پانی ہے:۔
ظلم آگ ہے تو محبت پانی، یہ رشتے وقت کے ساتھ اُلٹ پلٹ ہوتے رہتے ہیں، آج کا ظالم کل کا مظلوم اور آج کا معصوم کل کا ظالم بنتا ہے۔ ظُلمت کے دور میں مظلُوم کی مظلومیت و معصُومِیت:۔
ظلم و معصومیت:- مظلوم کی معصومیت، اُلفت و محبت ہمیشہ سے تھا ہمیشہ رہے گا۔
انسانوں سے محبت کرنے والے اور انسانوں کو سیلف لَو سکھانے والے، انسانیت کا عملی درس دینے والے لوگ۔ انسان کی نفرت کی نفسیات و ظلم کی وجوہات اور اس کے نقصانات کے اسرات۔ دیکھتے بھُگتے رہیں گے۔
انسان کا دل و دماغ:۔
انسانی دل و دماغ کی سوچ سمجھ:– دل و دماغ کی ہزاروں نامکمل چاہت۔ انسانی سینے میں چھُپا ایک چھوٹا سا گوشت کا ٹُکڑا ہے۔ انسان دیکھنے میں کتنا بڑا لگتا ہے اس کے جسم کے اندر ایک چھوٹا سا گوشت کا ٹکڑا ہے؛ لیکن اسی ٹکڑے میں نا ختم ہونے والی خواہشوں کی ایک دنیا بسی رہتی ہے۔ خواہشوں کی کثرت انسان کو نفرت کی طرف بہا لے جاتی ہے۔
جنگل کے قانون میں طاقت کا راج:۔
انسانی بستی میں جنگل کا قانون: بے لگام طاقت کا مظاہرہ، بے بہا طاقت کا اظہار، بے شمار طاقت انسان کو انسانیت سے گرا کر جانور بنا دیتا ہے۔ ظالم کا کام ظلم کرنا ہے اور مظلوم کا کام ظلم سہنا ہے۔ ظالم انسان عادتاً کمزور معصوموں پر ظُلم کرتا ہے۔ اس لئے مظلوم انسان ظالم سے نفرت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ظالم کی طاقت اور مظلم کی بے بسی۔ جنگل میں شیر سے کہیں زیادہ طاقتور جانور موجود ہیں۔ لیکن انہیں اپنی اس طاقت کا احساس ہی نہیں ہوپاتا اور وہ اپنے بچاو اور زندہ رہنے کے لئے بھاگتے ، چھپتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں جنگل کا قانون رائج ہے۔
انسان سے نفرت انسان ہی کرتا ہے؟
انسانوں سے نفرت کرنے والے انسان ہی ہوتے ہیں؟سماجی کرائم کا شکار انسان بُغض حسد، کینہ، عداوت، کے نتیجے میں ظُلم و تشدد اور ناانصافی کا شکار عام انسان ہو رہا ہے۔ نفرت اور تشدد کی نفسیات ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ بلا وجہ نفرت بلا وجہ عداوت، بے مقصد بُغض بے مقصد حسدکی عادت عام انسانوں میں معروف ہے۔
نمبر 1- نفرت پر مبنی کرائم و جرائم کے چند کردار ۔
پہلا کردار:- نفرت کرنے والے انسان کے دل و دماغ میں نفرت پلتا ہے، نفرت کرنے والا انسان ظلم و جبر پر یقین رکھتا ہے۔
دوسرا کردار:- ظلم و بربریت کو ہر حال میں سہنے والا معصوم مظلوم، بے بس مجبور انسان کی بے بہا مجبوری ؟
تیسرا کردار:- اس ظلم کو دیکھنے والے تماشائی انسان جو ویڈیوز بناتے اور میڈیا پر آپ لوڈ کرتے نظر آتے ہیں ان کے بارے میں کو کیا رائے ہے؟
نفرت کرنے والا انسان کا طرز عمل؟
ایک دل دو روگ، بیماری: محبت اور نفرت ساتھ ساتھ-انسان ایک سے محبت دوسرے سے نفرت کرتا ہوا نظر آتا ہے؟ محبت کرنے والا انسان انسانیت سے محبت کرتا ہے۔ اس کٹیگیری کے لوگ ایک دوسرے کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ محبت کرنے والے دل میں نفرت نہیں ہوتی جبکہ نفرت کرنے والے دل میں محبت نہیں ہوتی۔
سماجی برائی و کرائم۔
محبتی لوگوں کے مقابلے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے دل و دماغ میں دوسرے انسانوں کے لیے منفی سوچ، غصہ، نفرت اور تلخی کے جذبات پلتے بڑھتے رہتے ہیں۔ وہ انسانوں کو انسان سمجھنے کے بجائے انسان سے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں انہیں گالیاں دیتے ہیں اور ان کی تذلیل و تحقیر کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اس رویے کو بُرا نہیں سمجھتے یہ لوگ اس سماجی جرائم و برائی کے عادی ہو چکے ہیں۔
منفی اور مُثبت خیالات و نظریات کا اظہار نفرت کے جرائم میں تین کرداروں کیمعاشرے میں پرورش؟
پہلا کردار= نفرت و حقارت کرنے والا ظالم و جابر نفسیاتی انسان؟
دوسرا کردار= مظلوم و مجبور ظلم سہنے والا معصوم انسان؟
تیسرا کردار= اپنے ارد گرد ظلم و ستم دیکھنے والا تماشائی ویڈیو میکر انسان؟
جب ہم نفرت کرنے والے ظالم و جابر انسانوں کی کہانیاں، واقعات اور سوانح حیات ویڈیوز دیکھتے اور اخباروں میں اور کتابوں میں پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا ظالم و جابر ہو تا ہے۔
ماحول اور والدین نے نفرت کرنا سیکھایا؟
آج کا ظالم کریمنلز انسانوں نے ایسے خاندانوں اور معاشروں ماحول میں پرورش پائی جہاں ان کے والدین نےاپنے علاوہ سب سے نفرت کرنا سیکھایا۔ وہ اپنے بچوں کو دوسرے رنگ نسل زبان اور مذہب کے انسانوں سے نفرت کرنا سکھاتے نظر آتے ہیں۔
مجبوروں کی مدد۔
آج مجبور معصوم لوگوں کی قانونی اور نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔ ایسی مدد انسانیت کے کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ عوام کا اعتماد ملک کے تمام قانونی اور حکومتی اداروں پر قائم ہو۔ تب ہی جاکر ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے اور ملک و عوام ترقی کر سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کا شعور اور احترام آج کی ضرورت ہے۔
خواہیشوں کی تکمیل اور قانون سازی:۔
ترریر جاری ہے۔۔۔
0 Comments