احساس کمتری ایک ایسا مرض ہے جو قوم کو خوداعتمادی اورخودانحصاری کی طرف جانے ہی نہیں دیتا

کسی چیز کی کمی کا اور نہ ہونے کا یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جو ہم کو خود پر اعتماد اور خود پر انحصار کرنے ہی نہیں دیتا۔ قوموں کی ترقی اور اس میں حائل رکاوٹیں اسلامی تعلیمات کا نظریہ قومی وسائل کا غلط استعمال اور عوامی شعور کی بیداری۔

قوموں کی ترقی اور اس میں حائل رکاوٹیں ؟

   آج کل ترقی کا لفظ سنتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں اونچی نیچی عماراتیں، بڑے چھوٹے پُل گھومتی ہوئی سرکے، ہائی ویز اور رنگ برگ گاڑیوں کا خیال ترقی میں آتا ہے۔ یقیناً یہ سب کچھ آج کے دور میں ایک قوم کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ 

ترقی ایک یہ وہ مسلسل عمل ہے جو ہر دور میں جاری و ساری رہتا ضروری ہے۔ ہر نسل اپنے وجود کی بقاء اور فلاح کے لیےجدوجہد کرتی ہے اور اس کی ترقی اپنے سے پچھلی نسل سے جڑی ہوتی ہے۔ کسی کا ایک غلط فیصلہ آپ کی اگلی نسل کو ترقی کے راستے سے اتار بھی سکتا ہے اور ایک اچھا فیصلہ آپ کو ترقی کی راہ پہ چڑھا بھی سکتا ہے۔ 

وہ معاشرے ترقی یافتہ کہلاتے ہیں جو اشیا اپنے یہاں بناتے اور پیدا کرتے ہیں اور ان میں ویلیو ایڈیشن کرتے ہیں، اِن پورٹ زیادہ اور ایکسپورٹ کم کرتے ہیں۔ وہ ممالک جو احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں وہ اپنے یہاں چیزیں، اشیاء پیدا بھی کرتے ہیں۔ چیزوں میں جدد بھی لاتے ہیں لیکن اپنا نام اور لیبل اُس اشیاء میں لگا نہیں سکتے ہیں۔ وہ اس قدر مجبور ہوتے ہیں۔

ہم کس قدر مجبور ہیں کہ؟

ہمارے ملک کا شمار بھی ان ہی ممالک میں ہوتا ہے۔ جو بہت سارے اشیاء بناتے ہیں، پیدا کرتے ہیں مگر برانڈ کسی اور ملک اور کمپنی کا لگانے پر مجبور ہوتے ہیں اس کی وجہ وقتی فائدہ اور زیادہ منافع خوری کی سوچ ہے یا کچھ اور؟

احساس کمتری ایک ایسا مرض ہے جو قوم کو خوداعتمادی اورخودانحصاری کی طرف جانے ہی نہیں دیتا ۔ اسی لیے قوم و عوام خود کو دوسری قوموں سے فکری اور مادی طور پر خود کو سب سے کم تر سمجھنے لگتی ہے۔ 

اگر ہم اپنے خطے کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ برطانوی سامراج نے اپنے دوراقتدار میں عوام کے دلوں میں یہ نظریہ پھیلا چُکے ہیں کہ سفید فارم انگریز ہی سماج کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔گوڑی چمڑی والے تجارت کو جدید سائنسی اصولوں پر چلانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں اور انگریزی زبان ہی ترقیوں کا راستہ کھولتی ہیں۔ یہ کمتری کے احساسات اور نظریات ہماری قوم کے ہر طبقے میں پھیل چُکے ہیں۔۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ چائنا نے اپنی زبان کو فروغ دیا اپنے محنت سے جدید حکمت عملی اپنا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ترقی کے لیے کوئی مخصوص زبان، قوم اور رنگ علامت نہیں بلکہ اپنے آپ کو دوسروں سے مرعوب ہوئے بغیر اقوام اپنی خودانحصاری سے ترقی کر سکتی ہے۔

دنیا میں کوئی قوم ترقی دوسری قوم کی جھولی میں نہیں ڈالتی سکتی بلکہ اس کے لیے خوداعتمادی و مسلسل جدو جہد کر کے ترقی نصیب ہوتی ہے۔ یہ قانون فطرت ہے

نظام کی کمزوری یا بد نیتی؟

موجودہ نظام میں قومی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم تو بلاشبہ ہو رہی ہے اور ہمارے بہت سارے دانشور اس نظام پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔ اس نظام پر بحث و مباحثہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم زمانے کے تقاضوں کے مطابق نئے وسائل کو تلاش بھی نہیں کر رہے ہیں؟ اس سے ملک پر بڑا گہرا اثر پر رہا ہے۔

اگر ریاستی نظام سماج میں امن وامان اور کاروباری آسانیاں پیدا نہیں کرتے ہیں تو پھر دوسرے ممالک کی کمپنیاں یہاں انویسٹمنٹ نہیں کریں گی۔ اور مقامی تاجر بھی یہاں سرمایہ کاری نہیں کریں گی۔ اور ملک کے پڑھے لکھے نوجوان یہاں سے بھاگ رہے ہیں اور بھاگتے چلے جائیں گے۔ آج کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کی تبدیلی کے بجائے فرسودہ استعماری نظام کی تبدیلی کے لیے شعوری جدوجہد کا راستہ اختیار کریں

احساس کمتری ایک ایسا مرض ہے جو قوم کو خوداعتمادی اورخودانحصاری کی طرف جانے ہی نہیں دیتا؟

بالکل صحیح کہا! احساسِ کمتری ایک ایسا نفسیاتی مسئلہ ہے جو افراد اور قوموں دونوں کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ جب کسی قوم میں زیادہ تر افراد احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں، تو وہ اپنی قابلیتوں پر شک کرتے ہیں اور اپنی شناخت کو کمتر سمجھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، جدوجہد سے گریز کرتے ہیں اور خود پر اعتماد نہ ہونے کے باعث ترقی کے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔

یہ مرض اس وقت شدت اختیار کر لیتا ہے جب قوم اپنی زبان، ثقافت، اور تاریخی ورثے کو کم تر سمجھنے لگتی ہے اور غیر ملکی چیزوں کو بہتر اور اعلیٰ ماننے لگتی ہے۔ اس سے خود انحصاری کا جذبہ کمزور ہوتا ہے اور قوم ذہنی غلامی میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اس کا تدارک تب ہی ممکن ہے جب افراد میں خود اعتمادی پیدا کی جائے، تعلیم کو فروغ دیا جائے، اور اپنی شناخت پر فخر کرنے کا شعور اجاگر کیا جائے۔

احساس کمتری کو دور کیسے کیا جا سکتا ہے؟

احساسِ کمتری کو دور کرنے کے لیے قوم میں خوداعتمادی، خودانحصاری اور قومی شناخت کا شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے چند اہم اقدامات یہ ہیں:۔

نمبر 1- تعلیم اور آگاہی: تعلیمی نظام میں ایسا نصاب شامل کیا جائے جو قومی زبان، ثقافت، اور تاریخی ورثے سے آگاہ کرے۔ طلباء کو اپنے قومی ہیروز، سائنسدانوں، اور اہم شخصیات کے بارے میں پڑھایا جائے تاکہ انہیں اپنے ماضی پر فخر ہو اور وہ خود کو دوسروں سے کمتر محسوس نہ کریں۔

نمبر 2- خود اعتمادی کی تربیت: بچوں اور نوجوانوں کو خوداعتمادی سکھانے کے لیے تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔ انہیں مثبت سوچ، اہداف کا تعین اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ اپنے آپ کو

نمبر 3- اپنی زبان اور ثقافت کو فروغ: قومی زبان کو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ترجیح دی جائے اور ثقافتی تقریبات کو فروغ دیا جائے۔ اپنی زبان میں کام کرنے سے قوم میں خود اعتمادی بڑھتی ہے اور احساسِ کمتری کم ہوتا ہے۔

نمبر 4- لوکل بزنس اور انڈسٹری کو سپورٹ: مقامی کاروبار اور صنعت کو فروغ دینے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں تاکہ معاشی انحصاری میں کمی آئے اور قوم میں خود انحصاری کا جذبہ پیدا ہو۔

نمبر 5- مثبت رول ماڈلز کو فروغ دینا: میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسی شخصیات کو نمایاں کیا جائے جو اپنی محنت سے کامیابی کی منازل طے کر چکی ہیں، تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ اگر کوشش کی جائے تو کامیابی ممکن ہے۔

نمبر 6- تعاون اور یکجہتی: ایک قوم ہونے کے ناطے ہمیں آپس میں تعاون اور یکجہتی پیدا کرنی ہوگی۔ جب ایک قوم میں اتحاد اور بھائی چارے کا جذبہ ہوتا ہے تو وہ زیادہ خود اعتماد اور خود انحصار بن جاتی ہے۔

    اس قسم کے اقدامات لوگوں میں خود اعتمادی کو بڑھانے اور احساسِ کمتری کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    ترقی اور اس میں حائل روکاوٹیں احساس کمتری کی وجہ سے؟

    ترقی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ احساسِ کمتری، احساس محرومی بھی ہے۔ جب کوئی قوم یا فرد اپنی صلاحیتوں کو کم تر سمجھنا شروع کردے تو اس قوم کی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ احساسِ کمتری درج ذیل طریقوں سے ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے:۔

    نمبر 1- خوداعتمادی میں کمی: جب کسی قوم کے افراد خود پر اعتماد نہیں رکھتے، تو وہ نئے چیلنجز اور مواقع سے گھبراتے ہیں۔ نتیجتاً وہ ترقی کے عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے ہچکچاتے ہیں۔

    نمبر 2- خود انحصاری کا فقدان: احساسِ کمتری میں مبتلا افراد یا قومیں اپنی مشکلات کا حل خود تلاش کرنے کے بجائے دوسروں پر انحصار کرنے لگتی ہیں۔ اس سے نہ صرف قوم کی معاشی اور سماجی ترقی متاثر ہوتی ہے، بلکہ وہ ذہنی غلامی کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔

    نمبر 3- غیر ملکی اثرات کو زیادہ ترجیح دینا: احساسِ کمتری کی وجہ سے بعض قومیں اپنی زبان، ثقافت، اور تعلیم کو کم تر سمجھ کر غیر ملکی طرزِ زندگی کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ اس سے ان کی اپنی شناخت مدھم ہو جاتی ہے اور وہ دوسروں کے پیچھے چلنے لگتے ہیں۔

    نمبر 4- قومی وسائل کا غلط استعمال: احساسِ کمتری میں مبتلا قومیں اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کا صحیح استعمال نہیں کر پاتیں۔ وہ اپنی مصنوعات اور تخلیقات کو کم تر سمجھتے ہیں، جس سے مقامی صنعتیں اور کاروبار فروغ نہیں پاتے۔

    نمبر 5-قیادت میں کمزوری: احساسِ کمتری سے متاثرہ قومیں مضبوط قیادت پیدا نہیں کر پاتیں، کیونکہ ان کے پاس ایسے لوگ نہیں ہوتے جو قوم کی راہنمائی کر سکیں اور خود انحصاری و خود اعتمادی کو فروغ دے سکیں

    ترقی کے لیے ضروری ہے کہ قوم اپنی صلاحیتوں اور شناخت پر اعتماد کرے۔ جب لوگ اپنی قابلیتوں کو پہچانیں گے اور ان پر فخر کریں گے تو وہ خود اعتمادی کے ساتھ ترقی کی جانب بڑھیں گے اور معاشرتی و معاشی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں کم ہوں گی۔

    احساس کمتری میں اسلامی تعلیمات کا نظریہ کیا ہے؟

    احساس کمتری یہ ایک ایسا مرض ہے جو قوم کو خوداعتمادی اورخودانحصاری سے محروم کر دیتا ہے۔

    اسلامی تعلیمات کے مطابق، انسان کو احساسِ کمتری سے بچنے اور خود اعتمادی کے ساتھ زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی ہے، کیونکہ اسلام میں ہر فرد کو باعزت اور باصلاحیت سمجھا جاتا ہے۔ اسلام میں انسان کی شخصیت اور قابلیت کی قدر و منزلت کا خاص نظریہ موجود ہے، جو افراد اور قوموں کی ترقی اور خوداعتمادی کو فروغ دیتا ہے۔ اس نظریے کو چند اہم نکات کی صورت میں یوں سمجھا جا سکتا ہے:۔

    نمبر 1- اللّہ پاک پر ایمان اور توکل: قرآن و حدیث میں اللہ پر بھروسہ اور اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جب انسان اللہ کی مدد اور ہدایت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے اندر خوف اور احساسِ کمتری کم ہوجاتے ہیں، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے اور وہ اس کے ہر اچھے کام میں مدد کرے گا۔

    نمبر 2- انسان کو اشرف المخلوقات قرار دینا: قرآن میں انسان کو “اشرف المخلوقات” (سب سے اعلیٰ مخلوق) قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعلیم اس بات کا شعور دیتی ہے کہ انسان میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں اور وہ اللہ کی بہترین تخلیق ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر شخص کو اپنی اہمیت اور قابلیت پر اعتماد پیدا ہوتا ہے۔

    نمبر 3- کوشش اور محنت کی تلقین: اسلام میں کوشش، محنت اور صبر کی بہت زیادہ تاکید ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے” (سورۃ النجم، آیت 39)۔ یہ پیغام افراد اور قوموں کو متحرک کرتا ہے کہ اگر وہ ترقی چاہتے ہیں تو محنت اور کوشش کریں اور کسی قسم کا احساس کمتری نہ پالیں۔

    نمبر 4- علم کی جستجو: اسلام میں علم کے حصول کی بہت اہمیت ہے، اور علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ علم سے انسان کی بصیرت اور سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے قابل ہوتا ہے۔ علم انسان کو خود اعتمادی اور یقین فراہم کرتا ہے۔

    نمبر 5- تواضع و انکساری اور تکبر سے بچاؤ: اسلام میں تکبر سے منع کیا گیا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خود کو کمتر سمجھے۔ بلکہ، تواضع کا مقصد یہ ہے کہ انسان عاجزی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور ان سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا ہونا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ اسلام انسان کو ہمیشہ مثبت اور متوازن سوچ کی طرف بلاتا ہے۔

    نمبر 6- اُمت مُسلمہ کے لیے قول و کردار کی اہمیت: اسلام میں ہر مسلمان کو “خیر امت” قرار دیا گیا ہے، یعنی وہ بہترین امت ہے جو دنیا کے لیے رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔ یہ تعلیم مسلمانوں میں خود اعتمادی اور احساس ذمہ داری کو بڑھاتی ہے کہ وہ دنیا میں مثبت کردار ادا کریں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں

    اسلامی تعلیمات کا یہ نظریہ انسان کو احساسِ کمتری سے نکال کر خود اعتمادی اور ذمہ داری کی طرف لاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں اپنی ذات پر بھروسہ، اپنے رب پر یقین، اور علم و عمل کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی ہیں، تاکہ ہم خود کو اور اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر لے جائیں۔


    0 Comments

    Leave a Reply

    Avatar placeholder

    Your email address will not be published. Required fields are marked *