اسلام میں قانون پر عملداری کیسے ممکن ہو؟

اسلام میں قانون پر عملداری ایک انتہائی اہم اور وسیع موضوع ہے، جس کی بنیاد اسلامی شریعت پر ہے۔ شریعت اسلامی قانون کا وہ مجموعہ ہے جو قرآن و سنت، اجماع اور قیاس پر مبنی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو کو منظم کرنا اور انہیں دینی و دنیاوی معاملات میں رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے چار اہم مصادر ماخذ، قرآن مجید فُرقان حمید، سنت ، اجماع اُمت اور قیاس امت۔ اسلامی قانون کے اصول عدل و انصاف اور حدود اور سزاوں کا قانون وغیرہ۔

اسلام میں قانون پر عملداری کے چند اہم پہلوؤں پر مشتمل فارمولا :۔

نمبر 1- شریعت اسلامیہ کے چار اہم مصادر ماخذ کیا ہوگا- اسلامی نظام قانون میں اسلامی قانونِ شریعت کے چار اہم مصادر ہیں یہ ہیں۔

اے -قرآن مجید فُرقان حمید: اسلامی قانون کا بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے، جو اللّہ کا کلام ہے اور انسانوں کی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہدایات دیتا ہے۔

بی- سنّت طیبہ: سنت نبی کریم ﷺ کے اقوال، افعال، اور تصویبات پر مبنی ہے۔ یہ قرآن کی وضاحت اور تکمیل کرتی ہے۔

سی- اجماع اُمت: اجماع علماء یا امت کی اتفاق رائے ہے جو مسائل پر ایک اجتماعی فیصلہ فراہم کرتا ہے۔

ڈی- اسکالرز کا قیاس: قیاس عقل و منطق پر مبنی ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کا ذکر قرآن و سنت میں نہیں ملتا۔ یہ چار مصدر ہیں۔ ۔ ۔

نمبر 2- اسلامی قانون کے اصول۔

اسلامی قانون کی عملداری کچھ اہم اصولوں پر مبنی ہے:۔

عدل و انصاف: شریعت میں عدل اور انصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ہر فرد کو اس کا حق دلانا اور ظلم کو روکنا اسلامی قانون کا مقصد ہے۔

حقوق و فرائض: اسلام میں ہر مسلمان کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس کے فرائض بھی طے کیے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کا حق دوسرے مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

معاشرتی بہتری: شریعت کے قوانین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ معاشرہ ایک منظم اور پرامن حالت میں ہو اور لوگوں کے مابین انصاف اور بھائی چارے کا فروغ ہو۔

انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری: اسلام میں قانون نہ صرف انفرادی حقوق کا خیال رکھتا ہے بلکہ اجتماعی مفاد اور ریاستی سطح پر بھی انصاف کو یقینی بناتا ہے۔

نمبر 3- اسلام میں قانون کے اہم شعبے

اسلام میں قانون کو دو بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

اے – عبادات

یہ ان قوانین پر مشتمل ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کو منظم کرتے ہیں، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ۔ عبادات کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا اور روحانی پاکیزگی کو فروغ دینا ہے۔

بی- معاملات

یہ وہ قوانین ہیں جو انسانوں کے باہمی تعلقات کو منظم کرتے ہیں، جیسے:

خاندانی قانون: شادی، طلاق، وراثت وغیرہ کے معاملات۔

مالی قانون: تجارت، قرض، لین دین اور معاہدات کے اصول۔

فوجداری قانون: چوری، قتل، جھوٹ اور دیگر جرائم کی سزائیں۔

دیوانی قانون: جائیداد، کاروباری معاہدات اور دیگر معاشرتی تعلقات سے متعلق قوانین۔

نمبر 4- حدود اور سزائیں

اسلام میں فوجداری جرائم کی روک تھام کے لیے سزاؤں کا نظام ہے جو حدود، قصاص، اور تعزیرات پر مشتمل ہے:۔

حدود: وہ سزائیں جو قرآن اور سنت میں متعین کی گئی ہیں، جیسے چوری، زنا، شراب نوشی، اور قذف (جھوٹی تہمت) کے جرائم کی سزائیں۔

قصاص: اس میں جان اور جسمانی نقصان کے بدلے میں انصاف فراہم کیا جاتا ہے، جیسے قتل کے بدلے میں قتل یا دیت کی ادائیگی۔

تعزیرات: وہ سزائیں جو قاضی یا حکومت کی صوابدید پر مقرر کی جاتی ہیں، اور یہ ان جرائم پر دی جاتی ہیں جن کا ذکر حدود میں نہیں ہوتا۔

نمبر 5-شریعت کا مقصد

اسلامی قانون کا بنیادی مقصد فرد اور معاشرے کی اصلاح اور ترقی ہے۔ اس کے ذریعے انصاف کو فروغ دیا جاتا ہے، ظلم کو روکا جاتا ہے، اور معاشرتی امن و سلامتی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ شریعت انسان کی دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت کی بھی کامیابی کا ضامن ہے۔

نمبر 6- اسلامی ریاست میں قانون کا نفاذ

اسلامی ریاست میں قانون کا نفاذ حکومت اور عدلیہ کے ذریعے ہوتا ہے، جس کا مقصد عوام کے حقوق کا تحفظ اور عدل و انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین نے شریعت کے اصولوں پر مبنی حکومتیں قائم کیں جہاں انصاف کا بول بالا تھا اور ہر شہری کو اس کا حق دیا جاتا تھا۔

7. نمبر 7- اجتہاد کی ضرورت

جدید دور کے مسائل کا حل کرنے کے لیے اسلامی قانون میں اجتہاد کا اصول موجود ہے، جو نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے عقل و دانش کو استعمال کرنے کا نام ہے۔ اجتہاد کی بنیاد قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا تجزیہ کرنا اور نئے حالات کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔

اسلام میں قانون پر عملداری نہ صرف دینی فریضہ ہے بلکہ ایک منظم اور عادلانہ معاشرے کے قیام کی ضمانت بھی ہے، جہاں ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوں اور ہر شخص کو انصاف ملے۔

حدود اور تعزیرات؟

حدود اور تعزیرات اسلامی قانون (شریعت) کے دو اہم شعبے ہیں جو فوجداری جرائم اور ان کی سزاؤں سے متعلق ہیں۔ ان کا مقصد معاشرے میں انصاف کو فروغ دینا، جرائم کی روک تھام کرنا، اور عدل کا قیام ہے۔ ان دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حدود وہ سزائیں ہیں جو قرآن و سنت میں مقرر کی گئی ہیں، جبکہ تعزیرات وہ سزائیں ہیں جو قاضی یا حکومتی ادارے اپنی صوابدید پر مقرر کرتے ہیں۔

نمبر 1 اے- حدود

حدود وہ سزائیں ہیں جو قرآن مجید اور سنت نبوی میں مقرر کی گئی ہیں اور ان سزاؤں کا نفاذ ان جرائم پر ہوتا ہے جن کا تعین شریعت نے کیا ہے۔ حدود کی سزائیں قطعی اور متعین ہوتی ہیں، یعنی ان میں کمی بیشی یا تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی، کیونکہ یہ سزائیں براہ راست اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں۔

اہم حدود کے جرائم اور سزائیں:۔

زنا (بدکاری): غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے درمیان ناجائز تعلقات کے جرم پر سو کوڑے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ شادی شدہ افراد کے لئے رجم (سنگسار) کی سزا دی جاتی ہے۔

قذف (جھوٹی تہمت): کسی پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے پر 80 کوڑے کی سزا مقرر ہے، بشرطیکہ تہمت لگانے والا چار گواہ پیش نہ کر سکے۔

سرقہ (چوری): اگر کوئی کسی کی جائیداد چراتا ہے اور اس کے لیے شرائط پوری ہوں تو چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔

حرابہ (ڈاکہ یا فساد فی الارض): اس جرم میں قتل، ڈکیتی، اور راستہ روک کر لوٹ مار شامل ہے۔ اس جرم کی سزا قتل، سولی پر چڑھانا، یا مخالف سمت کے ہاتھ اور پاؤں کا کاٹنا ہو سکتی ہے۔

شراب نوشی (خمر): اسلامی معاشرت میں شراب نوشی کی سخت ممانعت ہے۔ اس جرم کی سزا 80 کوڑوں تک مقرر کی گئی ہے۔

ارتداد (اسلام سے انکار): اسلامی ریاست میں اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے تو اس جرم کی سزا قتل ہے۔

حدود کی خصوصیات:۔

قطعی اور غیر متبدل: حدود کی سزائیں شریعت میں متعین ہیں اور ان میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔

ثبوت کے سخت تقاضے: حدود کے نفاذ کے لیے ثبوت کے سخت تقاضے ہوتے ہیں، مثلاً زنا کے جرم میں چار معتبر گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

معافی یا کمی کی گنجائش نہیں: حدود کی سزاؤں میں کسی کو معاف کرنے یا سزا میں کمی کرنے کا اختیار حکومت یا فرد کو نہیں ہوتا۔

ثبوت کے سخت تقاضے: حدود کے نفاذ کے لیے ثبوت کے سخت تقاضے ہوتے ہیں، مثلاً زنا کے جرم میں چار معتبر گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ببر 2 – بی- تعزیرات

تعزیرات وہ سزائیں ہیں جو حدود میں شامل نہیں ہوتیں اور جن کا تعین قاضی یا حکومت کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ تعزیرات کا مقصد معاشرتی نظم و ضبط برقرار رکھنا اور ایسے جرائم کی روک تھام کرنا ہے جن کا ذکر قرآن یا سنت میں صراحتاً نہیں ہوا۔

تعزیرات کے جرائم اور سزائیں:۔

معاشرتی نظم کی خلاف ورزی: تعزیرات کے تحت وہ جرائم آتے ہیں جو حدود میں شامل نہیں ہیں، جیسے کم درجے کی چوری، فریب، دھوکہ دہی، جعلی سازی، رشوت، یا ناپ تول میں کمی کرنا۔

حکومتی قوانین کی خلاف ورزی: تعزیرات میں حکومتی قوانین کی خلاف ورزی جیسے ٹریفک قوانین، ٹیکس چوری، یا دوسرے شہری قوانین کی خلاف ورزی پر سزائیں شامل ہو سکتی ہیں۔

تعزیرات کی خصوصیات:۔

غیر متعین سزائیں: تعزیرات کی سزائیں قاضی کی صوابدید پر ہوتی ہیں، یعنی ان میں لچک ہوتی ہے اور جرم کی نوعیت، حالات، اور مجرم کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے قاضی فیصلہ کرتا ہے۔

جرم کے مطابق سزا: تعزیرات میں قاضی مجرم کے جرم کی نوعیت اور حالات کے مطابق مناسب سزا تجویز کرتا ہے۔ اس میں کوڑے مارنے، جیل بھیجنے، جرمانہ، یا دیگر سزائیں شامل ہو سکتی ہیں۔

مجرم کی اصلاح: تعزیرات کا مقصد صرف سزا دینا نہیں ہوتا، بلکہ مجرم کی اصلاح اور تربیت بھی ہوتی ہے تاکہ وہ دوبارہ معاشرت میں مفید شہری بن سکے۔

حدود اور تعزیرات کا فرق:۔

ماخذ: حدود کی سزائیں قرآن و سنت میں متعین ہیں، جبکہ تعزیرات کی سزائیں قاضی یا حکومت کے فیصلوں پر مبنی ہوتی ہیں۔

لچک: حدود کی سزائیں قطعی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی، جبکہ تعزیرات کی سزاؤں میں لچک ہوتی ہے اور قاضی حالات کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے۔

ثبوت کے تقاضے: حدود میں ثبوت کے سخت اصول ہیں، جیسے چار گواہوں کی موجودگی یا واضح ثبوت، جبکہ تعزیرات میں ثبوت کے تقاضے نسبتاً نرم ہوتے ہیں۔

نتیجہ کلام

اسلامی فوجداری قانون میں حدود اور تعزیرات دونوں کا مقصد معاشرتی انصاف کو یقینی بنانا اور جرائم کی روک تھام ہے۔ حدود کے ذریعے بعض سنگین جرائم کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں تاکہ ان جرائم کا سدباب ہو، جبکہ تعزیرات کے ذریعے ان جرائم کا احاطہ کیا جاتا ہے جن کا ذکر قرآن و سنت میں نہیں کیا گیا۔ دونوں نظام معاشرتی امن اور انصاف کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

قصاص کی وضاحت اجتہاد کے ساتھ ضروری ہے؟

تحریر جاری ہے۔ ۔ ۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *