والدین کے حقوق دین اسلام کے مطابق؟

اسلام کے مطابق والدین کے حقوق کیا ہیں؟ والدین کے حقوق میں احترام کے ساتھ پیش آنا شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بچوں کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا رویہ، اچھا برتاؤ، نیک نیت اور اچھے الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔ والدین ہونا ایک معزز مقام ہے، لیکن کسی بھی حالت میں اس مقام کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ والدین کے حقوق۔

اسلام میں والدین کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن اور حدیث میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احترام کا ذکر کیا گیا ہے۔ والدین کے حقوق کو مختصر طور پر درج ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

نمبر 1- والدین کا ادب و حترام اور عزت و توقیر۔

والدین کے ساتھ ادب و احترام اور عزت توقیر اور فرمابرداری کے ساتھ پیش آنا اسلام کا بنیادی حکم ہے۔ والدین کے سامنے آواز بلند نہ کرنا، بدتمیزی نہ کرنا۔ والدین سے نرم گفتگو کرنا اور ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا رب کی رضا ہے۔

نمبر 2- اطاعت اور فرمابرداری۔

اسلام میں والدین کی اطاعت اور فرمابرداری فرض قرار دی گئی ہے، سوائے اس کے کہ وہ کسی حرام یا غیر اسلامی کام کا حکم دیں۔ والدین کی جائز باتوں کو ماننا اور ان کی خدمت کرنا دین اسلام کا اہم حصہ ہے۔

نمبر 3- جب والدین بُرھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کی دل سے خدمت کرنا اور مسکراتے ہوئے اُن کی دیکھ بھال کرنا عین عبادت ہے۔

والدین کی خدمت اور بڑھاپے میں ان کی دیکھ بھال کرنا بچوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن میں خاص طور پر بڑھاپے میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ والدین کا ساتھ اچھا سلوک کرنے سے رب راضی رہتا ہے۔ اور رب راضی تو جگ راضی۔

نمبر 4- والدین کے لیے دعائیں کریں اور اُن کے لیے خیر خواہی چاہیں۔

اولاد پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین کے لیے اللّہ رحمن و رحیم کے حضور اُن کی عافیت کے لیے دعا کریں، ان کی بھلائی اور مغفرت کے لیے اللّہ سے دعا مانگیں۔

نمبر 5- والدین کے بنیادی ضروری ضروریات کا خیال رکھیں۔

والدین کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ حسب توفیق ان کی لازمی ضروریات کا خیال رکھا جائے، اگر وہ مالی یا جسمانی لحاظ سے کمزور ہو چُکے ہوں تو اپنی طاقت کے مطابق اُن کی خدمت و مدد کرنا واجب ہے۔

نمبر 6- نرم رویہ اور شفقت۔

والدین کے ساتھ سختی اور تلخی کے بجائے نرمی اور شفقت کا رویہ اختیار رکھیں، چاہے وہ اپنی بُرھاپے کی کمزوری کی وجہ سے آپ سے کسی معاملے میں سختی کر رہے ہوں یا غصہ کررہے ہوں۔ اگر آپ نے صبر کیا اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھا تو اللّہ کریم آپ کے ساتھ نرم رویہ رکھے گا۔ یہ مکافات عمل ہے۔ ان شاء اللّہ تعلیٰ

اور اہم نمبر 7- والدین کی رضامندی حاصل کرنا۔

اگر آپ اپنے بڑے یا چھوٹے فیصلوں میں اپنے والدین کو بھی شریک کرلیں ان کو شامل مشورہ کرلیں تو والدین خوش ہوجائیں گے۔ مثلاََ شادی بیاہ کا معاملہ ہورہا ہو یا کسی اہم کام کا آغاز کیا جا رہا ہو یا کوئی نئیا کاروبار کرنے جارہے ہوں یا کوئی بھی خاص و عام اِوینٹس وغیرہ ہو۔ والدین کے ساتھ مشورہ کرنے سے آپ کے کام و کاروبار زندگی میں برکت ہوگی اور اس عمل سے آپ کے اپنے بچوں پر بھی اس عمل کا اچھا اثر پڑے گا۔ ان شاء اللّہ تعلیٰ۔

والدین کے حقوق اسلام میں اتنے اہم ہیں کہ انہیں اللّہ سُبحان تعلیٰ نے اپنے عبادت کے فوراً بعد والدین کی خدمت کا ذکر کیا ہے، یعنی والدین کی خدمت اور اطاعت کو دین کے اہم ترین اعمال میں شمار کیا جاتا ہے۔  

والدین کے حقوق ہماری زمہ داری اور والدین کی فرمابرداری بچوں پر لازمی۔ والدین کے ساتھ حُسن سلوک کیا کرو۔ یعنی اچھا سلوک کیا کرو، اچھا بوتاو کیا کرو۔ رضاے الہی کے ساتھ ساتھ والدین کی فرمابرداری بچوں پر لازمی ہے۔

پہلا حق والدین کا ادب و احترام ہے

سورة بنی اسرائل :۔ آیت نمبر ۔ 23 اور 24 ۔ کا ترجمہ ۔

اور تیرا پرور دگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جایئں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا ، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ، اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھ نا، اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پروریش کی ہے ۔

صحیح بخاری : ۔ سیّدہ اسماء بنت آبی بکرؓ سے روایت ہے کہ میری ولدہ مشرک ہونے کی حالت میں قریش سے مصالحت کے زمانہ میں میرے پاس آیئں ۔ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللّٰہ ﷺ

میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار ہیں ، کیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاو کروں؟

رحمت العالمین سرور کونیں محمد مصطفےٰ ﷺ نے فرمایا : نعم ۔ ہاں اس کے ساتھ اچھا برتاو کرو۔

دوسرا – والدین کے حقوق والدین کے جائز حکم ماننا۔

اللّٰہ تعالیٰ نے والدین کے حق میں اس قدر اطاعت گزار رہنے کا حکم دیا ہے کہ اگر وہ شرک کرنے کو کہیں تو ان کی بات مت مانو مگر اخلاق اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے یعنی اللّہ اور رسول کی نافرمانی کے علاوہ کسی اور چیز کا جو وہ حکم دیں اُن کے حکم کو ماننا ضروری ہے۔

اللّٰہ پاک کا ارشاد فرماتا ہے کہ تم میری اور اپنے ولدین کی شکر گُزاری کرو۔

سورة لقمان ،14 – 15

ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑ وائی وہ 2 برس میں ہے ۔ یہی کہ تم میری اور اپنے والدین کی شکر گزاری کرو ، میری طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اِس بات کا دباو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو ، تو ان کا کہنا نہ مان ، ہاں ! دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو ۔ تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ۔ تم جو کچھ کرتے ہو ہھر میں اس سے خبر دار کروں گا ۔

سورة التوبہ ۔ ایت نمبر 23 میں اللّٰہ فرماتا ہے

اے ایمان والو! اپنے اپنے باپ دادا کو اور اپنے بھائیوں کو رفیق نہ بناو ، اگر وہ لوگ ایمان کے خلاف کُفر کو پسند کریں اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

سورة المجادلہ آیت نمبر 22 میں اللّٰہ فرماتا ہے

تم نہ پاو گے ان لوگوں کو ایمان رکھتے ہیں اللّٰہ پر اور آخرت کے دن پر کہ وہ اس سے دوستی رکھتے ہوں ، جس نے اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کی خواہ وہ ان کے باپ دادا ہوں ۔ یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے کنبے والے ہوں ، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللّٰہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان کی اپنی تائید سے مدد کی ہے ۔ اور وہ انہیں جنتوں میں داخل کرے گا ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، ان سے اللّٰہ راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ، یہی لوگ اللّٰہ کا گروہ ہیں ، خوب یاد رکھو ، اللّٰہ کا گروہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔

یقیناً اللّٰہ تعالیٰ نے ماوں کی نافرمانی تم پر حرام کردی ہے

سیّدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں دریافت کیا گیا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:۔ صحیح بخاری میں ہے کہ:۔

کر بھلا تو ہو بھلا والدین کی خدمت میں نسل انسانی کی فلاح و بقاء چھوپا ہے:۔

اللّٰہ کے ساتھ شریک کرنا کسی بندے کو ناحق قتل کرنا، ماں باپ کی نافرمانی وَ ایذاء رسائی اور جھوٹی گواہی دینا


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *