مسیلمہ کذاب یمامہ – دربار نبوی ﷺ میں مسیلمہ کی حاضری – دعویٰ نبوت کا آغاز –
اسود عنسی پہلا کذاب تھا جو حضور نبی کریم صلی الل3ہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم پر آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنے انجام کو پہنچا
اسود عنسی کا اصل نام عبہلہ بن کعب بن عوف عنسی تھا:۔ یہ حضرت محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ہی نبوت کا دعویدار بن بیٹھا تھا۔
جھوتا کزاب اسود عنسی: جھوٹے نبی کا دعویدار کذاب اسود عنسی کا تعلق یمن سے تھا۔ یہ خاتم الانبیاء سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی دعویٰ نبوت کرنے والا پہلا شخص تھا۔ اسود عنسی شعبدہ بازی اور کہانت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا چونکہ اس زمانے میں یہ دو چیزیں
کسی کے باکمال ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس کی معتقد بن گئی۔ اسود عنسی کو ذوالحمار کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا، تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اس کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا یہ جب اس کو کہتا خدا کو سجدہ کرو تو وہ فوراً سربسجود ہوجاتا، اسی طرح جب بیٹھنے کو کہتا بیٹھ جاتا اور اور کھڑے ہونے کو کہتا کھڑا ہوجاتا، نجران کے لوگوں کوجب اس کے دعویٰ نبوت کا علم ہوا تو انہوں نے اسے امتحان کی غرض سے اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس نے وہاں بھی اپنی شعبدے بازی دکھائی، لوگوں کو متاثر کیا اور چکنی چپڑی باتوں سے اہل نجران کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنالیا اور آہستہ آہستہ اس نے اپنی طاقت بڑھانا شروع کردی۔ سب سے پہلے اس نے نجران پر ہی فوج کشی کرکے عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو وہاں سے بیدخل کیا اور پھر بتدریج پورے یمن پر قبضہ کرلیا۔ عمرو بن حزم اور خالد بن سعید نے مدینہ منورہ پہنچ کر سارا قصہ حضور نبی کریم ﷺ کے گوش گزار کیا جس پر آپ ﷺ نے یمن کے بعض سرداروں اور اہل نجران کو اسود کے خلاف جہاد کا حکم نامہ تحریر فرمایا اور یوں یہ لوگ باہم ربط اسود کے خلاف متحد ہوگئے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حجتہُ الوداع سے واپسی کے علالت کا دور شروع ہوا اسی زمانے میں یمن کے علاقے میں قبیلۂ عنس کے ایک شخص عبہلہ بن کعب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ شخص مزاجاً نرم اور شیریں گفتگو والا تھا لیکن کریـہ صورت اور کالی رنگت کا تھا اسی وجہ اسے اسود کہا گیا یعنی کالا۔ اس کے لقب کے متعلق، ذو الخمار (اوڑھنی والا) یا ذو الحمار (گدھے والا) تحریر ہے، وجہ یہ ہے کہ کریہ صورت ہونے کے سبب وہ اوڑھنی کا نقاب لگاتا تھا اور اس کے پاس سدھایا ہوا ایک گدھا بھی تھا جو اس کے اشارے پر رکوع و سجود کرتا تھا۔ اسود عنسی شعبدے اور کہانت میں بھی ماہر تھا جس کی وجہ سے اسے دعوائے نبوت کو ثابت کرنے میں مدد ملی۔ شعبدے اور کہانت کے زور پر لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت کا معتقد بنا کر اس نے باضابطہ یمن کے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور بلا شرکت غیر ے،(مصلحت خداوندی سے) پورے یمن کا حاکم بن گیا۔ حکومت اور اقتدار ملتے ہی اس کے کلام کی شیرینی ختم ہو گئی اور عجز و انکسار کی جگہ غرور اور تکبر نے لے لیا۔
جھوتا کزاب اسود عنسی کا انجام:۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام حالات کی خبر ہوئی تو یمن کے چند مسلمانوں کے نام آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نے اسود عنسی کی سرکوبی کا حکم بھیجا، چنانچہ وہاں کے مسلمانوں نے حکمت اور مصلحت کے ساتھ، عسکری ہنگامہ آرائی کے بغیر اس فتنے کا سر کچلنے کے لیے باہم مشورہ کیا اور ایک دن اس کے محل میں نقب کے سہارے داخل ہوئے اور فیروز نامی ایک شخص نے اس کی گردن مروڑ کر اسے اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ ان تمام واقعات کی خبر جناب محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بذریعۂ وحی مل گئی اور آپ نے مدینے میں مسلمانوں کو بتایا۔ لیکن جب قاصد یہ خبر لے کر مدینہ پہنچا تو اس وقت جناب محمد رسول الله صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم اس دار فانی سے پردہ فرما چکے تھے۔
اسود عنسی کا انجام اور قتل کیسے ہوا؟
اسود عنسی نے صنعا پر قبضے کے بعد اس شہر کے مسلمان حاکم شیر بن باذان کی بیوی آزاد کو اپنے گھر میں قید کرلیا لیکن وہ اس سے سخت نفرت کرتی تھیں۔ ادھر آزاد کے چچا ذاد بھائی فیروز کو اس کا سخت رنج ہوا اور وہ آزاد کو اسود سے نجات دلانے اور انتقام لینے کے لیے مواقع ڈھونڈنے لگا۔ جب آپ ﷺ کا حکم نامہ ملا تو یمن کے مسلمان اسود کے خلاف لشکر کشی کے بجائے گھر میں گھس کر اسود عنسی کذاب کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ اسی دوران فیروز اپنی تایا زاد بہن آزاد سے ملا اور اس کو اسود عنسی کے قتل کرنے میں مدد کے لیے آمادہ کرلیا۔ آزاد کی مدد سے فیروز اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوا اور کذاب اسود کے کمرے میں گھس کر اس کی گردن توڑ کر مار ڈالا۔ اسود عنسی کے گلے سے خرخر کی آواز سن کر پہرے دار آگے بڑھے مگر آزادنے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ خبردار آگے مت جانا تمہارے نبی پر وحی کا نزول ہورہا ہے۔ فیروز نے محل سے باہر نکل کر اس کذاب کی موت کی خبر سنائی تو سب پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اسود کے قتل کے بعد جب مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا تو اسود کے پیروکار صنعا اور نجران کے درمیان صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی کی نذر ہوگئے اور یوں یمن ونجران ارتداد کے وجود سے پاک ہوگیا اور آپ ﷺ کے احکامات دوبارہ بحال کردیے گئے۔ اسود عنسی پہلا کذاب تھا جو حضور نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم پر آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنے انجام کو پہنچا۔
عہد خلافتِ صدیق کی پہلی خوشخبری
حضرت ابو بکر صدیق جب مسلمانوں کے خلیفہ مقرر ہوئے تو انھیں جو پہلی خوشخبری ملی وہ یہ ہے کہ اسود عنسی کا قتل ہو گیا اور مسلمانوں کو ایک فتنے سے نجات مل گئی۔
0 Comments