آئین پاکستان 1973کی تشکیل اور مختلف اوقات میں ہونے والی ترامیم کا ایک جائزہ:۔

آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل نمبر 5 کے تحت آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 5 مملکت سے وفاداری اور دستور اور قانون کی اطاعت سے متعلق یہ آرٹیکل ہے:- ملک عزیز سے وفاداری ہر پاکستانی شہری کا بنیادی فرض ہے، دستور و آئین کی پاسداری ہر فرد کے لئے بھی لازمی ہے۔ جو عارضی طور پر اور وقتی طور پر بھی پاکستان میں موجود ہوتا ہو۔ جیسے ٹوریسٹ وغیرہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ آئین کے دیباچہ میں درج ہے، ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستانی عوام اللّہ پاک کو حاضر ناظر جان کر اپنی قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پاکستان کو ایسی اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے جو ایک طرف تو اسلامی تعلیمات قرآن و سنّت کے عین مطابق ہو گا اور دوسری جانب قائد اعظم محمد علی جناح کے عزم و ویجن کے مطابق جمہوری ہو۔

آرٹیکل نمبر 5 کی شق نمبر ون ۔ 1- کے مطابق مملکت خداداد پاکستان سے ہر صورت پر وفاداری ہر شہری کا بنیادی اور اوّلین فرض ہے جب کہ شق نمبر ٹو ۔ 2- میں درج ہے، لکھا ہوا ہے کہ دستور پاکستان اور یہاں کے رائج قانون کی اطاعت ہر شہری کے لیے لازمی ہے، خواہ وہ شہری کہیں پر بھی رہتا ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت ٹیمپروارلی پاکستان میں قیام پزیر ہو اس کے لیے قانون پر چلنا واجب التعمیل ذمے داری ہوگی۔

اسلامی جمہوری پاکستان :۔

ریاست پاکستان قانونی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا 1973ء کے آئین کے نفاذ کی تفصیلات کچھ یوں درج کیا گیا ہے کہ سنہ 1972ء کے 14 اگست کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے بلڈنگ اسلام آباد میں 142 ممبران قومی اسمبلی نے حلف اُٹھایا تھا بتاریخ 17 اپریل کو عبوری آئین کے مسودے پر عمل کرتے ہوئے 25 رُکنی آئینی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی سربراہی کی ذمہ داری جناب محمد علی قصوری صاحب کو سونپی گئی تھی۔ اسی سال بتاریخ 22 اپریل سنہ 1972ء کو دستوری کمیٹی کے پہلےبیٹھک کا انعقادہوا تھا۔ بتاریخ 9 اکتوبر1972سنہ کو محمد علی قصوری صاحب کی جگہ جناب عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا، 17 سے 20 اکتوبر 1972ء تک صدر ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمانی پارٹی کے رہنماوں کو آئینِ پاکستان پر دستخط کرنے کی دعوت دی گئی تھی تاکہ تمام رہنما اپنی تجویز اور اپنی اپنی تحفظات کا اظہار کر سکیں اور اپنی رائے سے کمیٹی کو آگاہ کرسکیں، 31 اکتوبر 1973ء کے آئین سازی کے لیے یہ قانونی مسودہ ایڈوکیٹ عبدالحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی کے سامنے پیش کردیا تھا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 1973 کا آئین:۔

بتاریخ، 2 فروری 1973 ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مکمل کر کے باضاطبہ طور پر پیش کردیا گیا، 17 فروری 1973ء کو 34 پوئنٹس پر آئین پاکستان کی مختلف آرٹیکلز پر بحث مباحثہ کیا گیا، سنہ 10 اپریل 1973ء کو 125 ووٹوں سے آئین پاکستان منظور کرلیا گیا، 12 اپریل 1973 ء کو صدر پاکستان نے آئین پاکستان کو منظورکرلیا،یوں 14 اگست 1973 ء کو آئین پاکستان کا باضابطہ طور پر نفاذ عمل میں آگیا، یقینا اس میں دو رائے نہیں ہے کہ1973ء کا آئین پاکستان کی ایک ایسی دستاویز ہے جو بجا طور پر قومی وحدت، ملکی استحکام اور ملی اور قومی وقار کی علامت ہے، اس پس منظر میں آئین پاکستان 1973ء میں اب تک کی گئی 25 ترامیم کو آسانی کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ۔

مختلف وقتوں میں کی گئی آئینی ترامیم:۔

+یہکہ پہلی ترمیم 1974ء میں یوں کی گئی کہ پاکستان کے حدود اربعہ کا دوبارہ تعین کیا گیا‘نمبر 2۔دوسری ترمیم بھی 1974ء میں کی گئی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور 3-تیسری ترمیم 1975ء میں یوں کی گئی کہ اس ترمیم میں اس امینڈمینٹ کی مدت کو بڑھایا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو نامعلوم مقام پر رکھنا جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو اور 4- چوتھی ترمیم 1975ء کی شکل میں اقلیتوں کو پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں۔ اور 5– پانچویں ترمیم 1976ء میں ہائی کورٹس کے اختیار سماعت میں وُسعت کیا گیا اور 6-چھٹی ترمیم 1976ء میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کر دی گئی ۔اور 7-ساتویں ترمیم1977ء میں اس طرح کی گئی کہ وزیر اعظم پاکستان کو یہ آئینی طاقت دی گئی کہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ اور 8-آٹھویں ترمیم 1985ء میں جرنل صدر ضیاء الحق کے دور میں ترمیم اس طرح کی گئی کہ ملک میں پارلیمانی نظام کے ساتھ ساتھ نیم صدارتی نظام بھی متعارف کروایا گیا اور صدر کو اضافی قانونی اور آئینی اختیارات دیئے گئے۔ اور پھر اُسی سال 9- نویں ترمیم 1985ء میں اسلامی شریعہ لاء کو لاء آف دی لینڈ یعنی ملک میں اسلامی قانون کا درجہ دے دیا گیا۔ اور اب 10-دسویں آئینی ترمیم کے تحت 1987ء میں پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا کہ دو اجلاس کا درمیانی وقفہ 130 دن سے زیادہ نہیں بڑھا یا جائے گا۔ اور 11-گیارہویں آئینی ترامیم 1989ء کے ذریعے دونوں اسمبلیوں میں یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کے سیٹوں کی تعدد بڑھائی جائے گی۔ اور 12- بارہویں ترامیم 1991ء میں سنگین جرائم کے ملزمان کے تیز ترین ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں عرصہ 3 سال کیلئے قائم کر دی گئی تھی۔ اور 13- تیرہویں ترامیم 1997ء میں صدر کی نیشنل اسمبلی کی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو ہٹانے کی پاورز کو ختم کر دیا گیا، یہ آرٹیکل 58-2 بی تھا۔ اور اب مزی 14- چودہویں ترامیم 1997ء میں کیا گیا۔ جس میں ممبران پارلیمنٹ میں اُن کو پائے جانے کی صورت میں ان کو عہدوں

سے ہٹانے کا قانون وضح کیا گیا۔ اور 15- پندرھویں ترامیم 1998ء میں اسلامی شریعہ لاء ، قانون کو لاگو کرنے کے بلز کو پاس کیا گیا۔ اور 16- سولہویں ترامیم 1999ء میں کوٹہ سیسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کر دی گئی۔ اور اس

کے بعد 17- سترہویں ترامیم 2003 ء میں صدر کی پاورز میں اضافہ کیا گیا، اور 18- اٹھارہویں ترامیم 2010 ء میں این ڈبلیو ایف پی کا نام تبدیل کر کے خیبر پختون خواہ یعنی کے پی کے، کر دیا گیا اور آئین کا آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیا اور*****اس کے علاوہ صدر کے نیشنل اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات کو قلّی طور پر ختم کر دیا گیا۔

اور اب اس کے بعد 19-انیسویں ترامیم 2010 ء میں عمل میں لایا گیا۔ جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آیا اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضح کیا گیا۔ اور 20- بیسویں ترامیم 2012ء میں صاف شفاف ٹرانسپیریٹس انتخابات کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا‘ اور اب 21-اکیسویں ترامیم 2015 ء میں سانحہ اے پی ایس کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں اور 22- بائیسویں ترامیم 2016 ء میں چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا کہ بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکتے ہیں۔ ان ترامیم کے تحت ۔ اور اب 23- تئیسویں ترامیم 2017ء اور سال 2015 ء میں قومی اسمبلی نے 21- اکیسویں ترمیم میں 2 سال کے لئے ملٹری کورٹس قائم کیا گیا تھا۔ یہ دوسال کا دورانیہ 6 جنوری 2017 کو ختم ہو جا نا چاہیے تھا۔ اور اب 23- تئیسویں ترامیم میں ملٹری کورٹس کے دورانیے کو مزید 2 سال کے لئے 6 جنوری 2019 ء تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اور 24- چوبیسویں ترامیم 2017ء میں پاکستان میں مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کو دوبارہ تشکیل دیا گیا۔ اور 25- پچیسویں ترامیم 2018ء کے تحت فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ملانے کے لئے صدر نے 31 مئی 2018 ء کو دستخط کر دیئے تھے۔ اس ترمیمی بلز کے حق میں 229 ارکان نے اپنا حق رائے دہی ووٹ کا استعمال کیا۔ اور 26- چھبیس ویں ترامیم 13 مئی 2019 کو پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا اور اس ترمیمی بلز کے حق میں 288 ارکان اسمبلی نے ووٹ دیا اور کسی رکن اسمبی نے اس بلز کی مخالفت نہیں کی ۔ اسی بل کی رو سے سابقہ قبائلی اضلاع یعنی فاٹا کے نشستوں میں اضافہ کیا گیا ہے اس ترمیم 26ویں آئینی ترمیم کے زریعے۔

پاکستان کے 1973 کا آئین کے مطابق مُلک میں رہنے والے تمام شہری کی جان و مال عزّت و آبرو اور دیگر حقوق کے تحفّظ کا ضامن 1973 کا آئین ہے۔اور ملک میں رہنے بسنے والے ہر شہری کے بنیادی آئینی اور قانونی حقوق کا پاس دار یہ آئین ہے۔یاد رہے کہ دنیا کے ہرجمہوری مُلک میں آئین و دستور ہی کو اوّلیت کا درجہ حاصل ہے۔ مُلک کا کوئی بھی ادارہ اور شہری آئین سے ماورا اور بڑا نہیں ہے۔ اگر کوئی آئین سے انحراف کرے اور مُلکی قوانین سے اپنے آپ کو بالا سمجھے تو ایسے افاد کے لیے آئین و قانون میں سخت سزا مقرّر کی گئی ہے۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *