جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی:۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
“جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” علامہ محمد اقبال کا ایک مشہور مصرع ہے، جو اُن کے فلسفۂ فکر اور نظریۂ سیاست کی عکاسی کرتا ہے۔ اس مصرعے کا مطلب یہ ہے کہ جب دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا جائے تو سیاست میں ظلم و استبداد کا دور دورہ ہو جاتا ہے، جو انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اقبال کے نزدیک دین اور سیاست کا تعلق نہایت اہم ہے، اور ان دونوں کو الگ کرنے کا مطلب ایک غیر متوازن اور ظالمانہ نظام کا قیام ہے۔
دین اور سیاست کا تعلق عوام کی فلاح و بہبود سے ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے، دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو نہ صرف روحانی بلکہ دنیاوی امور کے بارے میں بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید اور سنتِ نبوی میں ہمیں ایسے اصول ملتے ہیں جو سیاست، حکمرانی اور معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ دین اور سیاست کے اس تعلق کو برقرار رکھنا ایک اسلامی ریاست کے قیام اور اُس کی صحیح معنوں میں حکمرانی کے لیے ضروری ہے۔
اقبال کی فکر
علامہ اقبال کی فکر میں دین اور سیاست کا اتحاد نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دین کے بغیر سیاست ایک ایسی قوت بن جاتی ہے جو صرف طاقت اور غلبے کی تلاش میں رہتی ہے، اور اس کا نتیجہ ظلم و استبداد کی صورت میں نکلتا ہے۔ اقبال کے نزدیک، دین انسان کو اخلاقی اور روحانی بنیاد فراہم کرتا ہے جو سیاست میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ ان کی شاعری اور نثر میں بارہا اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو سیاست اور حکمرانی میں نافذ کرنا ایک اسلامی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔
جدید دور میں اس مصرعے کی اہمیت
آج کے دور میں، جب دنیا مختلف سیاسی نظریات اور نظاموں کے تحت حکمرانی کر رہی ہے، اقبال کے اس مصرعے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ مختلف ممالک میں سیاسی عدم استحکام، کرپشن، اور عوامی حقوق کی پامالی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسے حالات میں دین کی اخلاقی اور روحانی تعلیمات کو سیاست میں شامل کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
نتیجہ
“جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” کے مصرعے میں علامہ اقبال نے ایک گہری اور اہم بات کی نشاندہی کی ہے۔ دین اور سیاست کا اتحاد ایک ایسا نظام فراہم کرتا ہے جو عدل، انصاف، اور عوامی فلاح و بہبود پر مبنی ہوتا ہے۔ اقبال کی یہ فکر آج بھی مسلم دنیا کے لیے ایک رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی نظاموں میں دین کے اصولوں کو شامل کر کے ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرے کا قیام عمل میں لائیں۔
دیباچہ
دیباچہ
الحمد للہ! تمام تعریفیں اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ درود و سلام نازل ہو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر، جو انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے اور جن کی سنت ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
اسلام ایک جامع ضابطہ حیات ہے جو انسان کی روحانی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ اس ضابطہ حیات کا ایک اہم جزو اسلامی سیاست اور ریاست کا تصور ہے، جو نہ صرف دینی اصولوں پر مبنی ہے بلکہ عملی حکمرانی کے لیے بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی ریاست کا تصور محض ایک حکومتی نظام نہیں بلکہ ایک ایسا فلاحی نظام ہے جو عدل و انصاف، حقوق العباد، اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر مرکوز ہے۔
قرآن مجید میں عدل و انصاف کے قیام پر زور دیا گیا ہے، جو اسلامی ریاست کا بنیادی اصول ہے۔ “اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو” (سورہ نساء: 135)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور مدینہ کی اسلامی ریاست اس کی عملی مثالیں پیش کرتی ہیں، جہاں عدل، مشاورت، اور حقوق العباد کی پاسداری کی گئی۔ خلفائے راشدین کا دور بھی اسلامی حکمرانی کے ان اصولوں کی عملی تعبیر ہے۔
اسلامی سیاست کا مقصد صرف حکومت کرنا نہیں بلکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوں، انصاف کا بول بالا ہو، اور لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اس میں اخلاقی اصولوں کی پابندی، عوامی خدمت، اور مشاورت کے ذریعے فیصلے کرنا شامل ہے۔ آج کے دور میں، جب دنیا مختلف سیاسی نظاموں اور نظریات سے گزر رہی ہے، اسلامی سیاست و ریاست کے اصول ایک مضبوط اور مستحکم نظام فراہم کر سکتے ہیں۔
اس کتاب کا مقصد اسلامی تصورِ سیاست و ریاست کے مختلف پہلوؤں کا جامع جائزہ لینا ہے۔ اس میں قرآن و سنت کے اصول، خلفائے راشدین کی حکمرانی، فقہ اسلامی کی تعلیمات، اور عصرِ حاضر میں اسلامی سیاست کے عملی نمونے شامل ہیں۔ امید ہے کہ یہ کتاب قارئین کے لیے ایک مفید رہنمائی ثابت ہوگی اور انہیں اسلامی سیاست کے اصولوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد فراہم کرے گی۔
والسلام
یہ دیباچہ اسلامی سیاست و ریاست کے تصور پر ایک عمومی جائزہ پیش کرتا ہے اور اس کتاب کی اہمیت و ضرورت کو بیان کرتا ہے۔ اس میں اسلامی تعلیمات کے مختلف پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا ہے جو ایک عادلانہ اور منصفانہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
جائزہ:
جائزہ
اسلامی تصورِ سیاست و ریاست ایک جامع اور ہمہ گیر نظام ہے جو انسانی معاشرت کے ہر پہلو کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس تصور کا بنیادی مقصد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو عدل و انصاف، امن و امان، اور اخلاقی و روحانی فلاح پر مبنی ہو۔ یہ نظام قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی فلاح و بہبود کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے۔
1. قرآنی اصول
قرآن مجید میں ریاست و سیاست کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں:
- عدل و انصاف: “اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو” (سورہ نساء: 135)۔ عدل و انصاف اسلامی ریاست کا بنیادی ستون ہے۔
- مشاورت: “اور ان کے معاملات آپس کی مشاورت سے طے ہوتے ہیں” (سورہ شوریٰ: 38)۔ مشاورت کا اصول حکومتی فیصلوں میں عوام کی شمولیت کو یقینی بناتا ہے۔
- امانت: “اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل کے سپرد کرو” (سورہ نساء: 58)۔ امانتداری اسلامی حکمرانی کی اہم صفت ہے۔
2. سنتِ نبوی اور خلفائے راشدین کا نمونہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی اور خلفائے راشدین کا دور اسلامی سیاست کی عملی مثالیں فراہم کرتے ہیں:
- میثاقِ مدینہ: یہ پہلا تحریری آئین تھا جس میں مختلف قبائل اور مذاہب کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا۔
- عدلیہ کا قیام: نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عدلیہ کا نظام قائم کیا اور خود بھی قاضی کے فرائض انجام دیے۔
- خلافتِ راشدہ: خلفائے راشدین نے عدل و انصاف، شوریٰ، اور عوامی احتساب کے اصولوں پر مبنی حکمرانی کی۔
3. فقہ اسلامی کی تعلیمات
فقہ اسلامی میں ریاست و سیاست کے بارے میں وسیع مواد موجود ہے:
- امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ نے ریاستی معاملات پر تفصیلی بحث کی ہے۔
- امام غزالی اور ابن خلدون جیسے مفکرین نے ریاست اور سیاست کے اصولوں پر اپنے خیالات پیش کیے۔
4. عصرِ حاضر میں اسلامی سیاست
آج کل مختلف اسلامی ممالک میں اسلامی سیاست کے مختلف ماڈل موجود ہیں:
- ایران: ولایتِ فقیہ کا نظام۔
- سعودی عرب: ملوکیت لیکن شرعی اصولوں کے مطابق۔
- پاکستان: آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ۔
5. اخلاقی اصول
اسلامی سیاست میں اخلاقی اصول کی بہت اہمیت ہے:
- صدق و امانت: حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیانتدار اور امانت دار ہوں۔
- حقوق العباد: عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا اور ان کی خدمت کرنا۔
نتیجہ
اسلامی تصورِ سیاست و ریاست ایک جامع نظام ہے جو قرآن، سنت، اور فقہ اسلامی پر مبنی ہے۔ اس میں عدل و انصاف، مشاورت، عوامی احتساب، اور اخلاقی اصولوں پر زور دیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس کے عملی نمونے بھی موجود ہیں جو عصرِ حاضر میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں، جب دنیا مختلف سیاسی نظریات اور نظاموں سے گزر رہی ہے، اسلامی سیاست و ریاست کے اصول ایک مضبوط اور مستحکم نظام فراہم کر سکتے ہیں۔
یہ جائزہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اسلامی سیاست و ریاست کے اصول نہ صرف ماضی میں بلکہ آج بھی انسانی معاشرت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک قابل عمل اور موثر نظام فراہم کرتے ہیں۔ اس نظام کی بنیاد عدل و انصاف، مشاورت، اور حقوق العباد کے تحفظ پر ہے، جو ایک مثالی اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے ضروری عناصر ہیں۔
خلاصہ کلام :۔
خلاصہ کلام
اسلامی تصورِ سیاست و ریاست ایک جامع اور ہمہ گیر نظام ہے جو قرآن، سنت، اور فقہ اسلامی پر مبنی ہے۔ اس نظام کا بنیادی مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جو عدل و انصاف، امن و امان، اور اخلاقی و روحانی فلاح پر مبنی ہو۔
1. قرآنی اصول
قرآن مجید اسلامی ریاست کے بنیادی اصول فراہم کرتا ہے:
- عدل و انصاف: انصاف پر مبنی حکمرانی ہر اسلامی ریاست کا بنیادی ستون ہے۔
- مشاورت: حکومتی فیصلے مشاورت کے ذریعے کیے جانے چاہئیں، تاکہ عوام کی شمولیت یقینی بنائی جا سکے۔
- امانت: حکمرانوں کو دیانتدار اور امانت دار ہونا چاہیے۔
2. سنتِ نبوی اور خلفائے راشدین
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین کی حکمرانی اسلامی ریاست کے عملی نمونے پیش کرتی ہے:
- میثاقِ مدینہ: مختلف قبائل اور مذاہب کے حقوق و فرائض کا تعین۔
- عدلیہ کا قیام: انصاف کی فراہمی کے لیے مضبوط عدلیہ۔
- خلافتِ راشدہ: عدل و انصاف، شوریٰ، اور عوامی احتساب پر مبنی حکمرانی۔
3. فقہ اسلامی
فقہ اسلامی میں ریاست و سیاست کے بارے میں تفصیلی بحث موجود ہے، جو اسلامی ریاست کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
4. عصرِ حاضر میں اسلامی سیاست
آج کے دور میں مختلف اسلامی ممالک میں اسلامی سیاست کے ماڈلز موجود ہیں، جیسے ایران کا ولایتِ فقیہ کا نظام، سعودی عرب کی ملوکیت، اور پاکستان کا آئینی اسلامی جمہوری نظام۔
5. اخلاقی اصول
اسلامی سیاست میں اخلاقی اصول کی اہمیت بہت زیادہ ہے، جیسے صدق و امانت اور حقوق العباد کا تحفظ۔
نتیجہ
اسلامی تصورِ سیاست و ریاست نہ صرف ماضی میں بلکہ آج بھی انسانی معاشرت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک قابل عمل اور موثر نظام فراہم کرتا ہے۔ اس نظام کی بنیاد عدل و انصاف، مشاورت، اور حقوق العباد کے تحفظ پر ہے، جو ایک مثالی اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے ضروری عناصر ہیں۔
یہ خلاصہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسلامی سیاست و ریاست کا تصور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو ہر دور اور ہر معاشرے میں عدل و انصاف اور فلاح کے اصولوں پر مبنی حکمرانی کے قیام کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی یہ جامع تعلیمات ہمیں ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرہ قائم کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، جہاں ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوں اور ہر انسان عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزار سکے۔
0 Comments