انسان اشرفُ المخلوقات ضرور ہے تاہم تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو آج کا انسان وحشی اور نیم وحشی اور دریندگی کے دور سے گزر کر اس نام نہاد تہزیب تک پہنچا ہے ۔

جب انسان کی فطری جِبلّت اس پر غالب آ جاتی ہے ۔ تو وہ دوبارہ اسی دور وحشت میں چلا جاتا ہے ۔ اس لیئے جہاں انسانوں کے درمیان بھائی چارہ ، اُخُوت ، یگانگت اور جزبہ ایثار نظر آتا ہے

وہی بعض چھوٹے چھوٹے تنازعات ، بڑے بڑے خوفناک بھیانک نتائج پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ ہر دور میں انسانوں کے درمیان زن ، زر اور زمین اور سیاسی پاور اقتدار کے حصول کی وجہ سے جنگ و جدل خون خرآبہ ہوتا رہا ہے ۔

قوموں کے درمیان کہیں خون کی ندیاں بہی ہے تو کہیں سروں کے مینار تعمیر کیے گئے ہیں ۔ اور کہیں قوموں کی عزتیں وَ عصمتیں سرے عام لوٹی گئے ہیں ۔ تو کہیں انسانوں کو زندہ اجتماعی در گور کیا گیا ۔اور کہیں انسانوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔ تو کہیں زندہ انسانوں کے گوشت سے تیل نکالے گئے ۔ اور کہیں انسان نے انسان کو اپنا غلام بنا لیا تو کہیں ۔ انسانوں کے گوشت کو تبرّک کے طور پر انسانوں میں بانٹے گئے ۔ اگر انسان انسانیت سے گر جائے تو یہ خون خوار بھیڑیوں سے بھی بد تر ین مخلوق بن جاتا ہے ۔ انسان انسان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہتا ! ۔

گر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں لیکن وہ اپنے بھائی سے نفرت کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے اور مکار ہے کیونکہ جب وہ آنکھوں سے نظر آنے والے انسان سے برا سلوک کرتا ہے تو نادیدہ خدا سے محبت کس طرح کر سکتا ہے؟(حضرت عیسیٰ ؑ )

جو شخص انسانوں کے حقوق ادا کر سکتا ہے وہ خدا کے حقوق ادا کرنے کا بھی اہل ہوتا ہے۔(حضرت علیؓ) کسی قوم کی دولت،کپڑا،لوہاسونا نہیں بلکہ قابل انسان ہیں۔(ماؤزے تنگ) اگر تجھے دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں ہے تو تُو اس قابل نہیں کہ تجھے انسان کہا جائے۔(شیخ سعدی) جو واقعی انسان ہوتا ہے وہ مرنے ے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔(فیثاغورث) انسانیت کی خدمت کرنا اور وہ بھی بے لوث،انسانیت کی معراج ہے


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *