کبھی کراچی امن و سلامتی کا شہر ہوا کرتا تھا؟

کراچی امن اور روشنیوں کا شہر کراچی کا امن کیسے واپس آسکتا ہے؟

مجھے یاد ہے زرا زرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔

ایسا بھی ایک وقت تھا:- مجھے یاد ہے زرا زرا۔ جب شہر کی سڑکیں صاف پانی سے دُھلا کرتی تھی۔ مگر آج تو پینے کو پانی بھی میسّر نہیں۔ وہ پانی بھی ہم خرید کر پینے پر مجبور ہو چُکیں ہیں۔

بےمیثال شہر کی با کمال یادیں

پُرامن شہر کی پر امن باتیں:- ایک ایسا بھی وقت تھا جب اس شہر میں غیر ملکی سربراہان سیر و تفریح کے لیے آیا کرتے تھے۔ وہ سربراہان بے خوف و خطر بغیر پروٹوکول کے اس روشنیوں کے شہر میں گھوما پھیرا کرتے تھے۔ غیر ملکی لوگ گھڑا گاڑی، ٹانگہ گاڑیوں میں شہر گھوما کرتے تھے۔ بیغیر چھت والی موٹر گاڑیوں میں سفر کیا کرتے تھے۔ شہر کے لوگوں سے سڑکوں پر بے تکلفی سے ملا کرتے تھے۔

مگر آج کا کیا حال ہے؟

مگر اب وہ لوگ نہیں اب وہ حالات نہیں رہے۔ غیر ملکی سربراہان اب کراچی آتے ہی نہیں، بلکہ اسلام آباد سے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔

میرا کراچی کیسا تھا؟

جی ہاں، کراچی کبھی ایک امن اور روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ 1947 سے 1970 کے دہائیوں تک یہ شہر کراچی پاکستان کے سب سے آباد شہروں میں سے ایک شہر ہوا کرتا تھا، اور یہ تجارت اور صنعت اور سیاحت کا قابل دید مرکز ہوا کرتا تھا۔ اُن دنوں میں کراچی کے حالات خوب سے خوبتر ہوا کرتے تھے اور لوگوں کی زندگی بہت سکون و آرام میں تھی۔

روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا؟

کراچی کے مختلف علاقوں میں برقی آلات کے ذریعے روشنی کی فراہمی کی جاتی تھی جس سے شب کے وقت شہر کا منظر بہت خوبصورت دل فریب نظر آتا تھا۔ شہری حالات میں سلامتی، تعلیم، اور بہترین زندگی کے لئے انسانی زندگی کی ضروری سہولیات موجود تھیں۔

اس شہر کی خوبی

ابھی بھی یہ شہر:- بلا کسی بھید بھاو کے بلا کسی چاچا امتیاز کے یہ شہر ہر فرد کو ہر انسان کو ویلکم کرتا ہے۔ یہ شہر ایک ماں کی طرح اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے۔ آہ کبھی، تبھی یہ شہر امن کا سفیر ہوا کرتا تھا۔

اس شہر کی خوبی:- آج بھی اس شہر کی خوبی یہ ہے کہ یہاں پر ہر زبان و رنگ و روپ اور ہر نسل و مذہب و فرقے کے لوگ آباد ہیں۔ یہ انڈسٹریل شہر ہر شخص کی روزی روٹی کے ساتھ نئی آباد کاری کا انتظام کرتا رہتا ہے۔

بد امنی اور اندھیروں کا شہر

یہ شہر:- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، سیاسی تنازعات، عدم استحکام بدعنوانی، بد امنی، لاقانونیت اور بے انصافی کا آماج گاہ بن چکا ہے۔ کرپشن بے خوف و خطر جاری ہے۔ ہر طرف مسائل ہی مسائل کا دور ہے۔ اس کی وجہ سے میرے شہر کی روشنی تاریکی میں بدلنے لگی ہے۔

کراچی کے حالات خراب ہوگئے اور کراچی کو کوئی اُون کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آج کا کراچی لاوارث ہو چکا ہے۔ ہر طرف ہر شوبہ میں مسائل ہی مسائل کا سامنا ہے۔

کس کی نظر کھا گئی اس شہر کو۔

اس شہر کو اہل سیاست کی نظر کھاگئی۔ سیاسی کشمکش اور سیاسی رسہ کشی کا دور دورہ ہے۔ اس شہر کی روشنی ماند پڑگئیں ہیں خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں۔

یہ روشنیوں کا شہر تھا؟

کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہوا کرتا تھا۔ اس شہر کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ یہ شہر پاکستان کے جنوبی سمندری ساحل پر واقع ہے اور اس کی شاندار شام شہر کے شہریوں کا دل بہلاتی تھی۔

مشکلیں اتنی پڑی کہ آسان ہوگئی۔

آج کا کراچی بے مثال:- شہری اِن چیزوں کے عادی ہوچُکے ہہیں۔ لوٹ مار کا بازار گرم، برساتی سیلاب، چاروں طرف کچڑا کُنڈی کا پہاڑ دنیا کی ہر قسم کی آلودگی ہر طرف اُڑتی پھرتی۔ سڑکیں اور اُس سے مُنسلک فوٹ پاتھوں پر طاقت وروں کا قبضہ۔ بجلی، پانی گیس ناپید مگر ان کے بلز کی ادائگی پابندی کے ساتھ۔ یہ نہ تھا میرا ہمارا مقدر ۔

غیر ملکی سرمایہ کاری کیسے ہو؟

غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ظاہر ہے، جب سرمایہ کاروں کو ان کے کاروبار اور سرمائے کے محفوظ ہونے کی گارنٹی ہی نہیں ہوگی، تو وہ کیوں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کا انتخاب کریں گے؟

ہمارے دیش کے دشمن دیش کو کھوکھلا کر رہے ہیں

شہر کراچی کے بارے میں دنیا میں یہ غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ یہ شہر مکمل طور پر امن و امان سے خالی ہے۔ جبکہ اس بات میں حقیقت نہیں ہے۔ مگر یہاں سماج دشمن عناصر بھی ایکٹیو ہیں۔ لیکن شہر کراچی کے لوگ امن و آمان و شانتی کے ہمیشہ سے خواہیش مند رہتے ہیں۔

اگر کسی قوم کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، اور انہیں تعلیم و تفریح کے مواقع نہ فراہم کیے جائیں، تو وہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں، اسی لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اسپورٹس کمپلیکس وغیرہ بڑی تعداد میں تعمیر کیے جاتے ہیں تاکہ فارغ وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی صحت بخش کام میں صرف کیا جائے۔

کراچی امن کے لیے

اپُر امن، پُرسکون کراچی؟ اگر کسی قوم کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جانے لگے، اور انہیں تعلیم و تفریح کے مواقع فراہم ہونے لگے، تو وہ قوم بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں، اسی لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اسپورٹس کمپلیکس وغیرہ بڑی تعداد میں تعمیر کیے جاتے ہیں تاکہ فارغ وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی صحت بخش کام میں صرف کیا جائے۔

من کے بغیر شہر کا آمان کیسے؟

کھیلوں کے میدانوں میں کھیل:- کھیل سڑکوں گلیوں میں نہیں ہونا چاہیے مگر بچے کہاں کھیل کھلیں؟ کھیلوں کا میدان اب کہاں خالی بچا۔ کراچی میں کھیلوں کے میدانوں کو بھی رہائشی عمارتوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اور کاروباری مراکز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

امن کے لیے ہر شہری کو آزادی رائے کے اظہار کا مکمل حق و مواقع فراہم کیا جائے۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *