گالم گلوج زبان سے یا چہرے کے تاثرات سے اس مغلظات کی ادائیگی۔

اسپینش اور میکسیکن زبان میں اختراع یا محاوروں کی بہت گنجائش ہوتی ہے کیونکہ جب وہ انتہائی غصّے میں گالیاں دے رہا ہوتا ہے تو وہ پورے جملے ادا کر رہا ہوتا ہے جس میں فائل، فعل اور مفعول تینوں پائے جاتے ہیں، اور ان گالیوں کو ایک کہانی کی طرح بیان کیا جاتا ہے

روسی مفکر میکائیل کے مطابق روسی زبان والے گالم گلوج گالیاں بکنے کے لیے بہترین ہے۔ وہ لوگ عام طور پر گالم گلوج بکتے رہتے ہیں اس زبان میں اتنے زیادہ توہین آمیز الفاظ ہیں کہ کوئی بھی بات گالی کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ ہمارے یہاں گالی دینے کا رواج ہمارے ادب کا حصہ ہے۔ اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی روسی ہو اور وہ گالی نہ بکے۔

مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ درد یا راحت یا شدت غم کی کیفیت میں حالت میں گالی دینے سے کیسے تسکین آرام ملتا ہے؟ گالی اور گالی کے مترادف الفاظ ادا کرنے ضرورت ہے۔ ماہر نفسیات کی رائے میں ڈاکٹر سٹیو کا کہنا ہے کہ عام الفاظ کے مقابلے میں گالی دیتے وقت ہمارے دل کی رفتار تیز ہو کر دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ اُن کے خیال میں گالیوں کی زبان ہمارے جذباتی تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ گالیاں ایک طرح کی جذباتی زبان ہے۔ یورپی نادشور اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ تکلیف کی حالت میں جب ہم گالی بکتے ہیں تو دراصل ہم اپنی قوت برداشت کی سطح کو بلند کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کیفیت کو ہم دانستہ دافع درد کا عمل یعنی درد دل اور درد جگر کا خاتمہ کہتے ہیں۔ یعنی آپ درد سے بے حس ہو جاتے ہیں، جو دراصل لڑنے یا راہ فرار اختیار کرنے میں مدد گار ہوتا ہے

بے اختیار ہماری زبانی پر گالی آجاتی ہے آخر کیوں؟ خوشی، حیرت، افسوس، درد اور غم و غصے میں ہمارے منہ سے گالی نکل جاتی ہے۔ اور اس گالی گلوج سے ایک طرح کی طمانیت اور تسکین ملتی ہے۔ اور جذبات کی بہترین ترجمانی بھی ہو جاتی ہے۔ جب ہمیں بہت تکلیف ہوتی۔ اس وقت ہمارے بس میں گالیاں دینا ہی تھا۔ کوئی دوسرا لفظ ہمارے کام نہیں آتا۔

گالی گلوچ کا تعلق ہمارے ماحول اور جذبات اور تربیت سے اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ گالی دینے کے لیے الفاظ درکار نہیں ہوتے گالی گلوج ہمارے دماغ میں کئی مقامات پر محفوظ رہتے ہیں۔ اس طرح بوقت ضرورت ہمارے پاس گالی گلوج کا ایک خاص بیک اپ موجود رہتا ہے۔

گالی گلوج گناہ کبیرہ ہے اور اس کی سزا دین اور دنیا دونوں جہاں میں ملتی ہے۔

گالی گلوج کا راج ، ہم گالی بکتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے، گالی گالی نہیں یہ معاشرتی کلچر کا حصہ ہے آج گالی ہمارے معاشرے کا تکیہ کلام بن چُکا ہے اور گالی دینا بُری بات ہے لیکن ہمیں گالی بکنے میں مزا کیوں آتا ہے؟

معاشرتی اخلاقیات کا خاتمہ گالی کی ابتدا، گھر میں گالی باہر میں گالی ایوانوں میں گالی بازاروں میں گالی تعلیمی اداروں میں گالی سوسائیٹی میں گالی گلوج کا راج۔

1993 AIR. LHR
لاہور ہورہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں قراردیا ہےجب کوئی تحصیلدار یا کوئی دوسرا سرکاری آفیسر دوران ڈیوٹی کسی شہری کو گالی دے اور جواب میں شہری اس پر تشدد کرے تو شہری کے خلاف قانونی کاروائی نہ ہوگی۔

گالی گلوج کی زبان زدّ عام ہے۔ جسے ہم صدمے میں دیتے ہیں حیرت میں دیتے ہیں، خوشی ہو یا غمی ہو اُس میں گالی دیتے ہیں، ہنسی مذاق میں گالی دیتے ہیں۔ میں گالی دیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ثقافتی معاملہ ہے اس گالی گلوج کا اِدارک مخصوص سماج، لسانی گروہ، معاشرے، ملک یا مذہب کے اندر ہی ہوتا ہے۔

غصّے میں آکر لوگ گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ہاتھا پائی ۔ پھر خون خرابہ ۔ پھر کورٹ کچہری ۔ پھر پولس کی گالی گلوچ پھر مار دھاڑ ۔ پھر جیل کی ہوا ۔ پھر افرا تفری ۔ پھر گھر کی بربادی ۔ پھر گالی گالی ۔

جن گھروں میں لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں ۔ اس گھر سے خیر و برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ دلوں سے ایک دوسرے کی عزّت و احترام ختم ہو جاتی ہے ۔ اور یہی لوگ معاشرے کو خراب کرتے ہیں ۔ گالیوں کی ابتدا گھر سے ہوتی ہے ۔ پھر باہر تک پہنچتی ہے ۔

ہم گالیاں دینے اور گالیوں کو سُنّے والی قوم بن رہے ہیں:۔

باپ گالی دیتا ہے، ماں سُنتی ہے اور خاموش رہتی ہے بیچاری ۔ پھر بچے باپ کی نقل اور تقلید کرتے ہیں ۔ پھر بچے گالی بکتے ہیں۔ماں سُنتی رہتی ہے ۔کیوں کہ ماں عادی ہو چکی ہوتی ہے ۔ اس گالی گلوج کے ماحول کی ۔ پھر بچے اسی ماحول میں پلتے ہوئے بڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ایک وقت ایسا بھی اتا ہے کہ انہیں گالیاں گالی نہیں لگتی ہیں ۔ معاشرے میں گالی روز مرّہ کی معمول اور گفتگو کا حصّہ بن چکی ہوتی ہے ۔ اب گالی گلوج انکے کردار کا ایک اہم حصّہ بن چکی ہے ۔

کیوں کہ ان کے خیال میں گالی دینا کوئی بُری بات نہیں ہے ۔ اسی لیئے اب ہمارے معاشرے میں مرد تو مرد ، عورتیں بھی روانگی سے گالیاں بکتی ہیں ۔ روکے نہ انہیں کوئی ۔ ٹوکے نہ انہیں کوئی ۔ جو جو کچھ کرتا ہے اسے وة کر نے دو ۔ جس نے کی نصیحت اسی کو فصیحت ۔

میں نے بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا ہے ۔ وة یہ کہتے ہیں کہ اگر گالیاں نہ ہوں تو گفتگو میں مزة نہیں رہتا رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا ۔ مسلمان کو گالی دینا گناة ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے ۔ صحیح بخاری

گالی گلوج کی زبان جو ہم خاص مواقع پر استعمال نہیں کرتے ہیں جیسا کہ طاقطور شخصیت کے سامنے گالی نہیں بکتے اور جب جاب انٹرویو پر جاتے ہیں تب گالی گلوج سے پرہیز کرتے ہیں یا اپنے ممکنہ ساس سسر سے ہونے والی پہلی ملاقات کے دوران ہم گالی گلوج سے بچتے ہیں ۔ ہاں اپنے سے کمزور کو خوب گالی بکتے ہیں ۔ یہ ہماری نفسیات ہے۔

اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناة ہے

حضرت عبداللّہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ۔ رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا ۔: کبیرة گناہوں میں سے ایک بڑا گناة یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعن طعن کرے ۔ پوچھا گیا ۔ یا رسول اللّہ ﷺ ادمی بزات خود اپنے والدین پر کیسے لعن طعن کر سکتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔صحیح بخاری ۔

جب کوئی شخص دوسرے کے والد کو گالی دے گا تو دوسرا شخص بھی جواب میں اس کے والد اور والدة کو گالی دیگا ۔ ” گویا پہلا شخص اپنے والدین کو گالی دلوانے کا خود سبب بنا “۔

اللّہ فرماتا ہے کہ : اور میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وة ایسی باتیں کہا کریں جو بہت اچھی “اور پسندیدة ” ہوں ۔ کیوں کہ شیطان ” بری باتوں سے ” ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے ۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔

ہم پبلک ٹوائلیٹس میں اگر کبھی جاتے ہیں تو وہاں صفائی تو نہیں ملتی ۔ البتہ در و دیوار پر گالیوں اور فحش منظر کشی کے زریعے اخلاقیات کا جنازة نکلتا نظر اتا ہے ۔

اللّہ فرماتا ہے کہ : اور خبر دار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ اللّہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے اللّہ کو برا بھلا کہیں گے ہم نے اسی طرح ہر قوم کے لیئے اس کے عمل کو آراستہ کردیا ہے ۔ اُس کے بعد سب کی باز گزشت پروردگار ہی کی بارگاة میں ہے ۔ اور وہی سب کو ان کے اعمال کے بارے میں با خبر کرے گا ۔

اسلام میں گالی سنگین جُرم اور گناة کبیرة ہے

اسلام ایک مہذّب دین ہے ۔ اس لیئے اس نے گالی کو سنگین جرم اور گناة کبیرة قرار دیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہ بات اشکار ہوتی ہے کہ اسلام میں تو ایک غیر مسلم کو بھی گالی دینا جائز نہیں ہے ۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں گالم گلوج کو لوگ بطور ہتھیار اور آخری حربہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

اگر ہمارا کسی سے کوئی ااختلاف ہو جائے تو ہم اس اختلاف کو دلیل سے دور کریں ۔ نہ کہ گالی گلوچ سے ۔ یاد رکھیئے گالی دینے والا شخص مہذّب نہیں ہوتا ۔ وة بُزدل اور ناکارة ہوتا ہے ۔ وة اپنے پرائے سب کی نظروں سے گر جاتا ہے ۔

چار خصلتیں منافقوں کی نشانی

چار خصلتیں جس میں ہونگی وة منافق ہوگا اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک بات ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک وة اس کو چھوڑ نہ دے ۔

امانت میں خیانت ۔ بات بات پر جھوٹ بولنا ۔ عہد توڑنا ” یعنی وعدة کرے تو پورا نہ کرے ” ۔ اور جھگڑے کے وقت گالیاں دینا ۔ فرمان رسول اللّہ ﷺ

صحیح بخاری ۔ کتابُ الاِیمان ۔ حدیث نمبر ۔: 34

گلوبل معاشرے میں گالی گلوج کا ارتقاء کیا ہے؟

گالی دینا مردانگی ہے ۔ گالی دینا چودراہٹ ہے ۔ گالی جذبوں کی بہترین ترجُمانی ہے ۔ گالی ایک آرٹ ہے ۔ اور اگر گالی انگریزی میں دی جائے تو لا جواب ہے ۔ واة واة

اور اب تو علماء حضرات بھی گالی کو سُر سنگیت میں دیتے ہیں ۔ اور اپنے مخالفین کو خود بھی موٹی موٹی گالیاں دیتے ہیں اور اپنے مُریدان کی بھی تربیت گالی گلوچ سے کرتے ہیں ۔ اپنے مُریدوں اور فالو ورز کو باضابطہ بتاتے ہیں کہ جب تم خانے کعبہ کا طواف کرو تو فلاں فلاں مسلکی مخالفین کو خوب گالیاں دو ۔ تمہیں ہر گالی کا ثواب ملے گا ۔ یعنی حج اور عمرے کے لیئے جاو تو ۔ حرمین شرفین کے میزبانوں کو دل بھر کے گالیاں بکّو ۔

اخلاقیات کا خاتمہ گالی کی ابتدا۔

جہاں دلیل ختم ہو جائے وہاں سے گالیاں شروع ۔

جہاں منطق ختم ہو جائے وہاں سے گالیاں شروع ۔

بے بسی کی انتہا تو گالیوں کی ابتدا ۔ گالیوں کی نشانیاں جہالت کی پہچان ۔

اللّہ ہماری حفاظت فرمائے آمین۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *