یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو ۔

بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی ۔

مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی ،

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی ۔

محلے کی سب سے پُرانی نشانی وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی ۔

وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈیرہ وہ ۔

چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا ۔

بُھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی ۔

وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی ،

وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی ۔

کڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکنا ۔

وہ چڑیاں وہ بُل بُل وہ تتلی پکڑنا ۔

وہ گُڑیا کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا ۔

وہ جھولوں سے گرنا ، وہ گر کے سنبھلنا

وہ پیتل کے چھلّوں کے پیارے سے تحفے ، وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے ۔

وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی ،۔

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی ۔ وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی وہ کاغذ کی کشتی کی کشتی وہ بارش کا پانی ۔ ۔

کبھی ریت کے اُنچے ٹیلوں پہ جانا ، گھروندے بنانا ، بنا کر مٹا نا ۔

وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی ، وہ خوابوں ، کھیلونے کی جاگیر اپنی ۔

نہ دُنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن ۔ نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن ۔

بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی ہماری ۔ بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی ہماری ۔

بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی ۔ بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی ہماری ۔

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی ۔ وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی ۔ ۔۔۔

Categories: نظم Nazam

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *