تاریخ اسلام کی روشنی میں علماء کا کام و کردار ؟ علماء حق کی پہچان اور معاشرے میں سماجی جرائم و کرائم اور نافرمانیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون؟ معاشرتی بدحالی کی روک تھام میں علماء کا عملی قول و کردار؟ معاشرے میں، مسلمانوں کے سماج میں روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم و کرائم کا ذمہ دار کون ہے؟ عوام یا سیاست دان یا علماء حق یا یہ تینوں؟ آخر ان بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کا کوئی طریقہ تو ہوگا؟

معاشرتی جرائم اور ان کا ممکنہ تدارُک:۔

جرائم و کرائم پر قانو پانے کے لیے اور ہر قسم کی برائی کو کنٹرول کرنے میں معاشرتی اور ثقافتی اقدار بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تک معاشرے میں عملی طور پر برائی کے خلاف سخت رد عمل نہیں ہوگا، اس وقت تک معاشرے میں امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ معاشرتی جرائم کے اسباب اور ان کا ممکنہ تدارک اسلامی تعلیمات کی روشنی میں۔

علماء کا کردار معاشرے کی ذہن سازی اور اخلاقی تربیت :۔

علماء رول ماڈل:-علماء عصر اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کریں کہ جو وہ بول رہے ہیں وہ قابل عمل بول ہے۔ دین و دنیا کی تسخیر اور کامیابی جدید علوم کے ساتھ ساتھ قوموں کی اخلاقی تربیت میں ہے۔ لوگوں میں اتنا حوصلہ اور شعور ہو کہ وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہہ سکیں مگر کیسے؟ تاریخ اسلام میں صحابہ اکرام کا کردار کیسا تھا جب کہ صحابہ کرام کے پاس موجودہ نوعیت کی تعلیم و ہُنر بھی نہیں تھا پھر بھی صحابہ نے لوگوں کو صحیح اور غلط کا شعور دیا لوگوں کے دلوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کیا کیسے؟ خود عمل کر کے، خود کو باعمل بنا کر کے۔

انسانی بستیوں پر مُشتمل آباد فلاحی معاشرہ اور اس کی تشکیل:۔

نمبر +- جہاں لوگ مل جُل کر رہنے لگیں وہیں معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ مختلف رنگ و نسل کے لوگ افراد سے ملکر معاشرہ وجود میں آتا ہے یہاں سے معاشرے کی تشکیل کی ابتدا ہوتی ہے۔

معاشرہ:- یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ معاشرہ کے معنٰی مطلب ہے کہ کسی علاقے میں آپس میں مل جل کر زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی بستی۔ اصطلاح میں اس سے مراد لوگوں کا وہ گروہ ہے جو کسی مشترکہ نصب العین کی خاطر وجود پزیر ہوا ہو۔ کسی معاشرے کے لوگوں میں مشترکہ فکری سوچ و فکر، علم و عمل، وحدتِ انسانیہ، ذہنی ہم آہنگی، آپس میں یکجہتی کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ معاشرے کے وجود میں جغرافیائی حد بندیوں کی کوئی حدود و قیود نہیں ہوتی۔ یہ معاشرہ کثیر التعداد بنی نوع انسان کی وہ اجتماعی اور جماعتی آباد زندگی ہے جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے اور ترقی کرنے حصول علم و ہُنر اور دیگر ضروری مقاصد کے حصول اور اپنی فلاح و بہبود بقاء باہمی امن و سلامتی کے حقوق حاصل ہیں۔ معاشرے میں ایک دوسروں سے واسطہ سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ یہ لازم و ملزوم ہیں اور جس ماشرتی ماحول سے کسی فرد کو کوئی ضرر نہیں پہنچے اُس کو معاشرہ سوسائیٹی کہلاتا ہے ۔  

انسانی معاشرے میں جرائم و کرائم کی گُنجائیش نہیں۔

عربی میں ایک لفظ ہے جسم ، تن، بدن۔ اس کی جمع اَجرام آجرائم یہ جریمۃ کی جمع ہے جس کے معنی قصور، خلاف قانون، خلاف ضابطہ حرکت اور قابل سزا فعل کے ہیں۔ جُرم، جِرم، جرائم اور جرام۔

کسی بھی صاحب عقل عاقل بالغ ہوشمند شخص کا شعوری طور پر نیتاََ قانون شکنی ریاستی قانون کی خلاف ورزی کرنا جرم کہلاتا ہے۔ اور جرم کرنے والے کو مجرم کہتے ہیں۔

پورا معاشرہ کرائم و جرائم کی لپیٹ میں آچکا ہے ذمہ دار کون علاء یا جُہلا؟

موجودہ دور میں جرائم ایک عام معمول اور معاشرے حصہ بن چُکا ہے۔ وہ جرائم خواہ اخلاقی نوعیت کے ہوں یا احساسی نوعیت کے ہوں یا جسمانی نوعیت کے ہوں۔ یا ٹیکنالوجی نوعیت کے ہوں جرم جرم ہے۔ معاشرے میں لوٹ مار قتل اور ڈکیتی سے و دیگر نوعیت کے جرام عام ہے۔ علاقائی اور شہروں کی سطح کا جرم ہو یا ملکی اور بین الاقوامی سطح کے جرائم ہوں۔ اس کی زد  سے نہ انفرادی زندگی مخفوظ ہے نہ اجتماعی زندگی محفوظ ہے۔ آج پورے معاشرے میں جرائم اور بد اخلاقی بد دیانتی کا تناسب بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے  میں جرائم کی کثرت کا جو عالم ہے وہ کسی بیان اور وضاحت کا مختاج نہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا پورا معاشرہ جرائم کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ریاست کے طاقتور طبقے ہوں یا دانشور ہوں مہذب تعلیم یافتہ لوگ ہوں یا عام لوگ ہوں یا خاص لوگ ہوں جرائم و کرائم سے کوئی محفوظ نہیں۔ لوگ اس کرائم کے اسباب و وجوہات پر اپنا  اپنا ا اظہارخیال  کر رہے ہیں؟

علماء کا کردار معاشرے کی اصلاح

کوئی بے روزگاری کو وجہ کرائم قرار دیتا ہے تو کوئی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ کوئی ناقص پالیسیوں کو ذمہ دار بتاتا ہے۔ کوئی سیکیورٹی کے صحیح انتظامات نہ ہونے کو اس کا اصل سبب گردانتا ہے تو کوئی مسجد و ممبر مدارس کے علماء کرام کو ذمہ دار قرار دیتا ہے کہ علماوں کا کام معاشرے میں لوگوں کی اخلاقی تربیت اور معاشرتی اصلاح ہے۔ مگر آج کے علماء اپنے دال روٹی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں یا کسی اور کاموں میں لگیں ہوئے ہیں۔ بحر حال یہ معاشرہ جرائم کی زد میں ہے۔

بہر حال ان ناگفتہ حالات کا ذمہ دار جو کوئی بھی ہو علماء ہوں یا جُہلا: معاشرتی جرائم و کرائم کے ظاہری اسباب اور مذکورہ چیزوں میں جزوی طور پر کثرت  جرائم کے ہونے کے اسباب ہیں۔ جہاں نہ روزگاری نہیں جہاں نطم و ضبط نہیں جہاں مجرم قانون کی گرفت میں نہیں اگر ہم جرائم کی سالانہ رپوٹ دیکھتے ہیں تو انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ معاشرے کے مساجد اور مدارس میں علماوں کی ایک بڑی تعدد موجود ہے۔ علماء وارث انبیاں کرام ہوتے ہیں۔ اگر علما کرام والینٹیری طور پر آپسی اختلاف کو آپس ہی میں رکھ کر معاشرے کی تربیت کریں تو معاشرے میں جرائم میں کمی آسکتی ہے۔ امن قائم ہو سکتا ہے۔

مسلمانوں کے معاشرے میں اسلام کا فقدان کیوں؟

سماج و معاشرے کا ایک دستور ہوتا ہے جس کے مطابق لوگ اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ اپنے روز مرہ کے معاملات کو انہی اصولوں کے تحت انجام دیتے ہیں۔ اور اگر معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم نہ رہے تو معاشرے میں عدل نا پیدہو جاتا ہے۔نمبر 3- جرائم کا پھیلاﺅ عام ہوجاتاہے۔ عوام بدحالی اور نا انصافی کاشکار ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوںمیں احساس اور ذمہ داری کا خیال نہیں رہتا معاشرہ ذلت و رسوائی کی علامت بن جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔آج بڑھتے ہوئے جرائم کے نوجوان نسل پر جس قدر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ  شرح خواندگی کا بہت کم اور ہماری عملی تربیت کا اسلامی طرز زندگی کے اصولوں کے عین مطابق نہ ہونا ہے۔ اسلام میں ملت کی بقاءکیلئے معاشرے کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس کیلئے اسلام نےقوانین بھی وضع کئے ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہوکر ہم مسلمان اپنی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ہم نے اسلام سے دوری اختیار کی  ۔ جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ جھوٹ، قتل و غارت، فریب اور چوری، رشوت خوری، سود اور شراب نوشی اور دوسروں کی حق تلفی جیسی برائیاں جنم لے چکی ہیں۔ اور افسوس صد افسوس کہ حکومت ان جرائم کی روک تھام کیلئے   کوئی ٹھوس اقدامات عمل میں نہیں لا رہی ۔بڑھتی ہوئی قتل و غارت گری نے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بناکر رد عمل ظاہر کیا جاتا ہے جو ہنگامی صورتحال کو جنم دے رہی ہیں۔

اسلامی تعلیمات کی ضرورت کیوں؟

آج اسلامی تعلیمات سے دوری نے ہمارے ذہنوں کو اس قدر مفلوج کردیا ہے۔ کہ حلال حرام، سچ اور جھوٹ، کی تمیز نہیں رہی اور اخلاقی گراوٹ  کا شکار ہو کر دیگر جرائم میں ملوث ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ تباہی کی نظر ہو چکا ہے۔ کرپشن اور لوٹ مارنے معاشرے کی دھچیاں اڑا دی ہیں۔ ہر فرد زندگی کے آسائشوں کو ڈھونڈنے کیلئے کرپشن میں ملوث ہو رہا ہے۔ اسی طرح نشے جیسی بد ترین برائی بھی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔بہت سے  لوگ ذہنی سکون حاصل کرنے کیلئے نشہ  کی لعنت میں مبتلا  ہیں۔ جوکہ غیر اخلاقی جرم ہے اور معاشرے میں بگاڑ  کا سبب بھی۔ دین اسلام سے دوری نے صحیح اور غلط میں پہچان ختم کردی ہے۔ معاشرے میں تعلیم کا فقدان اور بہترین آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے واقعات جنم لے رہے ہیں۔ آج ہم جس قدر معاشرتی برائیوں میں گھر کر انسانیت کی درجہ بندی سے گر گئے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی اور عملاً اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہو کر اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے،جس طرح ہر چیز کے پیدا ہونے کےجواز ہوتے ہیں اسی طرح جرائم کے پیدا ہونکے بہت سے اسباب ہیں، سب سے پہلے اسباب کا ذکر ہوگا اس کے بعد معاشرہ سے مجرمانہ سرگرمیوں کے تدارک کے بارے میں اصلاحی تجاویز پیش کی جائے گی ۔ ان اسباب میں سے چند چیدہ چیدہ اور بڑے بڑے اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔

ذہن سازی اسلامی تربیت کی روشنی میں

نمبر 1- خوف خدا اور فکر آخرت کا فقدان 2۔ اتحاد و یکجہتی کا فقدان۔ 3۔ معاشرے کا غیر ذمہ دار انہ رویہ اور اس کے نقصانات ۔ نمبر 4-غربت کے مقصانات۔ نمبر 5- ناانصافی کے نقصانات۔6۔ بے روزگاری۔7۔ معاشرے میں شرح خواندگی کی کمی تعلیم و تربیت کی کمی۔نمبر8- کمزور اور غیر منظم پولیس کا نظام ۔ نمبر 9- معاشرے میں عدم برداشت۔

مسلمانوں کی بستی میں خوف الہٰی اور فکر  آخرت کا فقدان؟

آج ہمارا معاشرہ جن لا ینحل مسائل و مصائب کے گرداب میں پھٹ ہوا ہے اسکی ایک بڑی وجہ خوف خدا سے غفلت اور فکر آخرت کو ترک کرنا ہے ہم نے اس ناپیدار دنیا کو مقصود و مطلوب بنایا ہے اور آخرت کی دائمی اور نہ ختم ہونے والی زندگی کو بھلایا ہے انہی اجتماعی گناہوں ،غفلتوں اور کتاہیوں کا نتیجہ ہیں کہ آج پورا معاشرہ جرائم کی لپیٹ میں ہے اور نت نئے مسائل کا سامنا کر رہاہے ۔، اگر آج بھی لوگوں کے دل ودماغ میں یہ حقیقت راسخ کردی جائے کہ زندگی صرف اس دنیا تک محدود نہیں بلکہ مرنے کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی زندگی ہوگی ،جس میں لوگوں کے حقیقی معنوں میں کامیابی اور ناکامی کا اعلان کیا جائے گا ، تو صرف  ایک چیز ہے جو انسانوں کو تنہائی میں بھی مجرمانہ سرگرمیوں سے باز رکھنے پر مجبور کرسکتی ہے بعثت نبوی ﷺسے پہلے کا دور  جا ہلیتاور تاریک  دور کہلاتا ہے جس میں انسانیت دم توڑ چکی تھی ، اور انسان اپنی پہچان کو بیٹھاتھا ،ا ہر طرف قتل و غارت گری  و فساد کا بازار گرم تھا ، انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی ، اس کی ابرو و عزت محفوظ نہ تھی ، زنا روز کا معمول تھا ، لیکن جب حضور ﷺ تشریف لائے ، لوگوں کے دل و دماغ پر محنت کی تو پھر وہی جزیرہ جو جرائم کی آگ میں جل رہا تھا وہاں  جرائم کا خاتمہ ہوا ، اور امن ومحبت کی بہاروں اور رحمت خداوندی کے نزول کا مرکز ٹھہرا۔

اسلام کا پیغام عام ہے مگر پہچان کون کروائے؟

حقیقت  میں کرۂ ارض پر فساد و بگاڑ کا اہم سبب حقیقی ناشکری و نافرمانی ہے، اس کے احکامات سے کھلی بغاوت نافرمانی ہے۔ ارشاد باری ہے:۔

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ(۴)

ترجمہ : ’’خشکی اور تری میں انسانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے فسادوبگاڑ پھیل رہا ہے اسلئے کہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ ان کو چکھا دے، ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُم (۵)

ترجمہ :اور جو کچھ مصیبتیں تمہیں پہنچتی ہیں وہ دراصل تمہارے اپنے ہاتھوں کے اعمال کا بدلہ ہے”

یقینا ایمان اور اعمال صالحہ اس دنیا کو امن و آمان کا گہوارہ بناتے ہیں، انفرادی طور پر ایک انسان کی نیکی و پارسائی اور بحیثیت مجموعی پورے معاشرہ میں نیکی و پرہیزگاری ، صلاح و تقویٰ کی پاسداری بہتروپرامن  معاشرہ کی ضمانت ہے۔ ایمان اور اعمال صالحہ سے قلب و روح کی دنیا بہار آفریں بن جاتی ہے اورجب ایسے انسان جس  معاشرےمیں بکثرت ہوتے ہیں تو وہاں اللہ کے گھر آباد ہوتے ہیں، سارے ماحول میں عبادات و ریاضات اور احکام الٰہیہ کی پابندی کا نور جگمگانے لگتاہے، عدل و انصاف، رواداری، پیارومحبت، امانت و دیانت، اخلاص و رضاجوئی کے انوار بکھرنے لگتے ہیں  اور اِن اعمال صالحہ کی خوش رنگی ایمانی کیفیات کو نوروسرور بخشتی ہے، اسکی وجہ سے معاشرہ سکینت و طمانیت، راحت و رحمت کا مظہر بنتا ہے۔ اسکے برعکس کفروشرک کی تاریکی اور اعمال بد کی گندگی بھی ایک ایسی بد نما حقیقت ہے جو اپنے اندر حد درجہ عفونت رکھتی ہے، جس کے تعفن کا ایمان و اعمال صالحہ پر کاربند نیک و صالح افراد تحمل نہیں کرسکتے۔ بندگانِ خدا کی حق تلفی، ظلم و زیادتی، نارواتعصب و دشمنی، قتل و غارت گری و خوںریزی ان سب کا رشتہ بے دینی سے جڑا ہوا ہے، جسکا جتنا تعلق اللہ سے کٹے گا اتنا ہی اسکا تعلق ان بداعمالیوں سے جڑے گا، نتیجہ  میں معاشرہ کا سکون درہم برہم ہوگا۔

نظام کی کامیابی کس میں ہے؟

امتحان کی کامیابی اس میں ہے کہ ایک انسان اس دنیا میں معرفتِ الٰہی کے نور سے اس حقیقت تک پہنچے،اس دنیا میں امن و سکون کا راز اِسی میں مضمر ہےاس وقت دنیا میں حقوق الٰہی میں بھی بڑی غفلت برتی جارہی ہے، توحید کے نور کے بجائے کفروشرک کے گھٹا ٹوپ  اندھیرے چادر تانے ہوئے ہیں۔ بندگانِ خدا کے حقوق کو بڑی بے باکی سے تلف کیا جارہا ہے۔ جس معاشرہ میں دنیا جہاں اور معاشرہ کو وجود بخشنے والی ذت کو نظر انداز کردیا جائے، سینہ تان کر اسکے حقوق کی پامالی کی جائے اور مخلوق خدا پر ظلم وستم ڈھا کر اُن کو حقوق سے محروم کیا جائے ایسے معاشرہ میں امن  و سکون کہاں سے آسکتا ہے۔اس وقت سارے عالم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حقوق اللّہ بھی پامال ہورہے ہیں اور حقوق العباد بھی، مساجد اور عبادت گاہوں کا احترام ختم ہوتا جارہا ہےاور  اللہ کی کتاب قرآن کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کیاجارہا ہے، غلط تاویلات کا سہارا لیکر انسانی جانوں سے کھیلا جارہا ہے ، قتل و خون اور انسانی جانوں کا ضیاع وہ بھی اسلام کا سہارا لیکر کیا جارہا ہے، یہ جوکچھ تماشہ ہورہا ہے وہ اپنوں کے ہاتھوں میں ہے، بذات خود وہ اِن اعمال بد کے مرتکب ہیں یا یہ کہ دشمنان اسلام کے آلہ کار بن کر، یقینا اس مُعمہ کا حل واضح ہونا چاہئے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے۔

مقامی مساجد کے علماوں کی ذمہ داری؟

یہ ہے کہ اسلام دشمن بلکہ انسان دشمن طاقتیں بڑے پیمانے پر سارے عالم میں فساد مچارہی ہیں ،اگر گہری بصیرت کیساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس خیر اُمت نے ایمان اور اس کے تقاضوں سے پہلو تہی کی ہے ، خود اپنی اور پورے معاشرے کی اصلاح جسکا فریضۂ منصبی تھا اس سے غافل ہوگئی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اِس وقت اسلامی سماج نام کو تو اسلامی ہے لیکن در حقیقت  غیراسلامی شعائر نے ڈیرا جمالیا  ہوا ہے ،جس سے  اسلامی تہذیب و تمدن کو اپنے اعمال بد سے داغدار کردیا  ہے، مسلم معاشرہ میں خیر و بھلائی کے پھول مہکنے کے بجائے شروبرائی کی خاردار جھاڑیاں روح ایمان کو لہولہان کررہی ہیں۔

اسلام ایک افاقی پیغام کس کے لیے؟

اس آیت پاک میں حق سبحانہ و تعالیٰ نے خشکی و تری میں فسادوبگاڑ پھیلنے کے اسباب بیان فرمادئے ہیں، خشکی و تری کے سارے خطے  اس وقت امن و سکون سے محروم ہیں، اس مصیبت کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خود انسانوں کے پاس ہے، انسان جس دن الٰہ واحد کے حقیقی معنی میں پرستار بن جائیں اور اسی کو اپنا مأویٰ و ملجاء مان کر اسکی پناہ میں آجائیں اُسی دن وہ رحمت الٰہی کے سائبان میں آجائیں گے ، اور ان کی   اپنی بداعمالیوں کی وجہسے آنے والے سارے خطرات ٹل جائیں گے، مصائب و آلام جو اللہ سبحانہ کی طرف سے بطور زجر و توبیخ  اور بطور سزا و تنبیہ نازل ہورہے ہیں اور دشمنان اسلام کی شکل و صورت میں ظلم ڈھارہے ہیں ہر دو سے خلاصی ممکن ہے، بشرطیکہ کفروشرک اور بداعمالیوں کی تاریکی کو امت مسلمہ اپنی جہد مسلسل سے توحید اور ایمان کی روشنی  میں تبدیل کردے۔ خشکی وتری سے فسادوبگاڑ کو دور کرنے کا کاایک راہستہ ہے کہ بندگانِ خدا اسکے بنائے ہوئے نظام عدل کو خود اپنی ذات پر اور معاشرہ میں رہنے بسنے والے سارے انسانوں پر لاگو کریں۔ الغرض اس دنیا کومصائب وآلام سے چھٹکارہ دلانے اور اس کو گہوارۂ امن و سکون بنانے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے اسلام۔

اتحاد و یکجہتی کا فقدان

اتحاد و یکجہتی  کمیابی  بھی معاشرے میں جرائم کی  پیداوارکا سبب  ہے حالات  کچھ اس نہج پر آگئے ہیں  ۔ کہ ہر فرد ذاتی مفادات کے حصول کیلئے   کو شاں ہے ، ، ایک دوسرے کی خبرگیری  نہیں  ، ہر شخص خود غرضی اور خود فریبی کے جنون میں مبتلا ہے ۔باہمی  اعتماد کی کمی  اور نظریاتی انتشارجرائم پیشہ عناصر  کو جرائم کے لیے ماحول  سازگا ر کر دیا ہے ۔۔ حالانکہ اسلام  ہمیں باہمی اتحاد و اتفاق  کی تلقین کرتا ہے، اور  ایک دوسرے کی ایذا رسانی سے منع کرتا ہے اس لئے اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (۶)

ترجمہ :”ایک دوسرے کی مدد نیکی  اور تقوی میں کرتے  رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو “

اسلام کے نزدیک لڑائی جھگڑا کرنے والے لوگ فساد کی جڑ ہوتے ہین اور انہیں کوئی بھی ( خواہ اس کا تعلق کسی  بھی معاشرے سے ہو ) تحسین کی نگاھ سے نہیں دیکھتا ۔اسی بنا پر اللہ تعالی نےسورۃ الحجرات میں  ارشاد فرمایا

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ  (۷)

ترجمہ: ” بے شک مسلمان (باہم ) بھائی بھائی ہیں سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کردیا کرو “

خضور ﷺ کا فرمان ہے ۔

عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يؤمن أحدكم، حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه» (۸)

حضرت انس ؓسے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔

” کوئی شخص مومن (کامل ) نہیں ہوسکتا  تاآنکہ اپنے  بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے “

3==۔معاشرے کا غیر ذمہ دار انہ رویہ==

ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ خود تو جرائم سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں مگر جو لوگ مجرمانہ زندگی کی خطرناک لہروں میں پھنسے ہوئے ہیں ،ان کو اس  برائی کے بھنور  سے نکالنے  اور بچانے کی فکر نہیں کرتے ،یہ ایسی اجتماعی غلطی ہے جو عام ذہنوں میں رچ بس گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم خواہ قتل وغارت ،ڈکیتی اور اغواء کی صورت مین ہو یا لسانی فسادات اور مختلف قسم کی دہشت گردی کی صور میں ہو ، روز بروز بڑھ رہے ہیں لیکن ان کے سد باب کا اہتمام نہیں ۔ جرم لوگوں کے سامنے ہوتا ہے۔لیکن وہ اسکی روک تھام کیلئے رد عمل کرنے  سے گریز کرتے ہیں ۔

حدیث پاک میں ہے: ۔

حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” مثل القائم على حدود الله والواقع فيها، كمثل قوم استهموا على سفينة، فأصاب بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها، فكان الذين في أسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم، فقالوا: لو أنا خرقنا في نصيبنا خرقا ولم نؤذ من فوقنا، فإن يتركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا، وإن أخذوا على أيديهم نجوا، ونجوا جميعا ” (۹)

ترجمہ : حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ حدود الہیہ میں سستی اور نرمی کرنے والوں اور حدود الہیہ کو توڑنے والوں کی مثال ایسی ہے کہ کثھ لوگ ایک کشتی میں بیھٹے ہوں اور کشتی کی نشستوں میں تعین کے لیے قرعہ ڈالا ، چنانچہ ان میں سے کچھلوگ کشتی کے بالائی منزل پر بیٹھے اور کچھ نیچے کی منزل میں تھے ، وہ پانی لینے کے لیے اوپر والی منزل میں جاتے تھے ،جس کی وجہ سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ، پس نیچے کی منزل والے نے کلہاڑا لے کر کشتی کے نیچے حصہ میں سوراخ کرنا شروع کردیا ،اس نے جواب دیا کہ میرے آنے جانے سے آپ حضرات کو تکلیف ہوتی ہے اور ہمیں بہر حال پانی کی ضروت ہے ، اس لیے میں نے سوچا کہ کشتی کے نیچے سے سوراخ کر لوں تاکہ یہاں سے پانی لے لیا کروں ، اب اگر یہ لوگ اس سوراخ کرنے والے کا ہاتھ پکڑ لیں اور اسے سوراخ کرنے سے باز رکھیں تو اس کو بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اس کو اس حال پر چھوڑ دیا تو یقینا اس کو بھی ڈبوڈدیں گے اور خود بھی ڈوب جائیں گے ۔

اس حدیث مبارکہ میں سمجھا یا گیا کہ پورا معاشرہ ایک ہی کشتی میں سوار ہے جب یہ کشتی جرائم اور گناہوں کے سوراخوں کی وجہ سے ڈوبے گی تو صرف گناہ گار ہی غرق نہیں ہوں گے بلکہ یہ کشتی نیک وبد سب کو لے کر ڈوبے گی ۔

عن قيس بن أبي حازم، عن أبي بكر الصديق أنه قال: أيها الناس، إنكم تقرءون هذه الآية:۔

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ } (۹)

وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الناس إذا رأوا الظالم فلم يأخذوا على يديه أوشك أن يعمهم الله بعقاب منه» (۱۱)

حضرت قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ سیدناابو بکر صدیق نے ارشاد فرمایا اس میں اللہ تعالی کی حمد وثنا کے بعد فرمایا لوگو!تم یہ آیت :

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ (۱۲)

(ایمان والوں تم اپنے نفس کو لازم پکڑو تم کو نقصان نہیں دے گا وہ شخص جو گمراہ ہو جائے جبکہ تم ہدایت پر ہو )پڑھتے ہو ، تم اس آیت کا مفہوم غلط لیتے ہو کہ ہم پر دوسروں کو گناہوں سے روکنا ضروری نہیں ، سب اپنی فکر کرنی چاہیے ، حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالی ان سب کو عذاب عام میں مبتلا کردیں ۔ اسی طرح ابو داؤد کی روایت ہے ۔

عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن أول ما دخل النقص على بني إسرائيل، كان الرجل يلقى الرجل، فيقول: يا هذا، اتق الله ودع ما تصنع، فإنه لا يحل لك، ثم يلقاه من الغد، فلا يمنعه ذل  ك أن يكون أكيله وشريبه وقعيده، فلما فعلوا ذلك ضرب الله قلوب بعضهم ببعض “، ثم قال: {لعن الذين كفروا من بني إسرائيل [ص:122] على لسان داود وعيسى ابن مريم} إلى قوله {فاسقون} [المائدة: 81] ، ثم قال: «كلا والله لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر، ولتأخذن على يدي الظالم، ولتأطرنه على الحق أطرا، ولتقصرنه على الحق قصرا» (۱۳)

ترجمہ : رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بنی اسرائیل جرائم اور گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے ان کو روکا ، تاہم وہ باز نہ آئے ، تب بھی ان کے علماء نے ان مجرموں کے ساتھ کھانا پینا اور اٹھنا  بیٹھنا جاری رکھا ،پس اللہ تعالی نے سب کے  دلوں کو ایک دوسرے کے مشابہ کردیا اور حضرت داؤد اور حضرت عیسی کی زبان سے ان پر لعنت فرمائی کیونکہ وہ بنی اسرائیل نافرمان تھے اور حد سے نکل جاتے تھے ۔

حضور ﷺ نے جب یہ بات ارشاد فرمائی ، اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے ، پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، تم معذور قرار نہیں دیئے جاسکتے اور نہ عذاب الہی سے بچ نہیں  سکتے ، یہاں تک کہ تم ان گناہ گاروں کو حق پر مجبور کرو ۔

ان  آیات مبارکہ اوراحادیث مقدسہ  سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عذاب الہی سے بچنے کے لیے صرف خود نیک ہونا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ اپنی ظاقت اور قدرت کے مطابق جرائم پیشہ افراد کو جرائم سے باز رکھنا ، ان کا ہاتھ روکنا ، انہیں قبول حق پر مجبور کرنا بھی ضروری ہے ، کیونکہ جرائم پیشہ افراد  کا بغیر روک ٹوک  کے کھلم کھلا جرم کرنا پورے معاشرے کا یہ اجتماعی جرم ہے جس پر اجتماعی عذاب و وبال نازل ہوتا ہے ۔ آج ہم سب اس اجتماعی جرم کے مرتکب ہے

غربت   

جرائم کے وجوہات میں کچھ حد تک غربت کا بھی دخل ہے جب لوگوں کو جائز طریقے سے ضروریات زندگی پورا کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہو تو ان حالت میں لوگ عملی زندگی میں پنپنے کیلئے  جرائم سے وابستہ ہو جاتے ہیں  احساس کمتری اور احساس شکست تو اُن کو جرائم کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔ 

جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے

عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” كاد الفقر أن يكون كفرا، وكاد الحسد أن يغلب القدر ” (۱۴)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھبی کبھار آدمی غربت کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار حسد تقدیر پر غالب ہوجاتا ہے۔

نا انصافی

عدل اور انصاف بہترین معاشرے کے لیئے نہایت ضروری ہے، اللّہ تعالی نے ایک ریاست کے قاضی یا جج کو عدل و احسان کرنے اور صحیح فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اللّہ نے فرمایا ۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (۱۵)

ترجمہ :اللّہ تعالی تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے

ایک اور جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے

وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (۱۶)

ترجمہ : اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔

جس معاشرے سے عدل اور انصاف اٹھ جائے اس معاشرے میں طر ح طرح کی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن میں سے سب سے خطرناک برائی جرائم ہے جو کہ معاشرے کے لیئے سم  قاتل ثابت ہوتی ہے ، اگر ہم آس پاس اپنے ملک و معاشرے میں) نظر دوڑائیں تو بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں عدل و انصاف اور قانون کی بالا دستی کا شدید فقدان ہے، جب کوئی معاشرہ کسی کو انصاف فراہم نہ کر سکے تو ظلم سے متاثر شخص انتقام  کی آگ میں جلنے لگتا ہے اور پھر وہ حصولِ انصاف کے لیئے خود میدان میں  نکل آ تا ہے اورانتقامی کاروائی کے بعد وہ سزا کے خوف سے معاشرے میں واپس نہیں آتا اور جرائم کی تاریک دنیا میں پناہ لیتا اور وہاں مفاد پرست لوگ پناہ دینے کے بہانے اسکو اپنا آلہ کار بنا لیتے ہیں  اور انفرادی جرم کی ابتداء کر بیٹھتا ہے لیکن بات یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ رفتی رفتہ اسکے ساتھ مزید لوگ ملتے جاتے ہیں اور ایک گروہ کی شکل اختیار کر لیتے ہپیں اور یوں اجتماعی جرا۴م کا ایک نیا باب وجود میں آجاتا ہے ۔   اسی طرح ایک عام شخص  گروہ در گروہ میں تبدیل ہو کر معاشرے کے لیئے ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور پھر معاشرہ جو کہ خود اس ناسور کا ذمہ دار ہے اسکو ختم کرنے کے لیئے اپنی توانائیاں صرف کرنے لگتا ہے اور حکومت کی تما تر توجہ اور وسائل ان جرائم پیشہ عناصر  اور اسکی کارروائیوں کو روکنے میں صرف ہونے لگتے ہیں۔

معاشرے سے نا انصافی، رشوت اور ظلم کا خاتمہ ہی ایسی تلوار ہے جو کہ جرائم کی شرح  کو بہت نیچے لاسکتی ہے، اور اس کے لیئے حکومت کو مخلص ہو کر متعلقہ اداروں سے کام لینے کی بے حد ضرورت ہے۔ جس معاشرے میں جرائم کی سطح آ خری حد کو چھو رہی ہو وہاں کبھی معاشی خوشحالی نہیں آ سکتی اور نہ ہی وہ معاشرہ  ترقی کی راہ پر  گامزن ہو سکتا ہے ۔

بے روز گاری

مملکت خداداد پاکستان  میں مستقل روزگار والے کم ہیں ،اچھے پڑے لکھے طبقے کو بھی ملازمت حاصل کرنا دشوار بن گیا ہے ، بے روزگاری سے تنگ آکر لوگوں میں لاقانونیت کا رجحان پیدا ہوتا ہے ۔بے روزگاری اکثر وسائل کی غیر منصفانہ  تقسیم سے ہی وجود میں آتی ہےسو بھوک اور بے روزگاری کی چکی میں پسنے والے لوگ اکثر جرائم کی طرف چل نکلتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ بندوق اٹھا لیں، جعلسازی ، اسمگلینگ ، منشیات فروشی اور ایسے دیگر جرائم سے وابستہ لاکھوں لوگوں کی نوے فیصد سے بھی زیادہ تعداد بے روزگاری سے تنگ آکر اسطرف چلی آئی ہے اور پھر اس دلدل میں ایسی دھنسی ہیکہ نکلنا دو بھر ہو گیا ۔میرا یہ مطلب نہیں کہ ہر آدمی کو سرکاری نوکری دینا ہی حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہیکہ وہ روزگار کے صاف شفاف اور رشوت سے پاک  مواقع اور ساز گار ماحول پیدا کرے اس مقصدکیلئے مختلف صنعتوں اور تجارتوں کو فروغ دے ،کارحانے جات اور فیکٹریاں قائم کرے ، قرض جو کہ بینکوں کے ذریعے دیئے جاتے ہیں ( روزگار کے لیئے) ان کی ترسیل عام ضرورت مند لوگوں تک انصاف کی بنیاد پر یقینی بنائے ۔ مفاد پرست پالیسی میکرز جو کہ لمبی اور مشکل پالیسیاں بنا کر مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ان پر کڑی نظر رکھے اور ان عہدوں پر مخلص اور اہل لوگوں کو تعینات کرے اور بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں کو رشوت اور سفارش کی لعنت سےپاک کرے   اوران بد عنوانیوں میں  ملوث لوگوں کوکڑی سے کڑی سزا دیکر  عبرت کا نشان بنائے جائے۔

معاشرے میں شرح خواندگی کی کمی

تعلیم کسی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اور تعلیم کا فقدان  کسی معاشرے میں برائیوں اور دقیانوسی روایات کا موجد ہوتا ہے۔ جرائم کی پیداوار میں ایک سبب تعلیم کا فقدان یعنی شرح  خواندگی کی کمی  بھی ہے ، اکثر جاہل افراد جرائم کی سماجی ،اخلاقی اور مذہبی قباحت  سے ناواقفیت کے سبب بہت سے جرائم کے مرتکب ہوجاتے ہیں ۔

پرائمری تعلیم ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اسکی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دیا گیا ہے جسکی وجہ سے تعلیم کی عمارت کمزور رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم کو صرف پڑھنے لکھنے کا ہنر گردانا جاتا ہے جو کہ ایک غلط اور خطرناک سوچ ہے تعلیم میں جب تک تحقیق کو ایک خاص مقام نہ دیا جائے تعلیم فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔

کمزور غیر منظم پولیس کا نظام اور قانونی گرفت کا فقدان

محکمہ پولیس جو کہ بہت سے یونٹس پر مشتمل ہے،معاشرے میں  امن امان کا ذمہ دار ہے، لیکن ہماری پولیس کو جرائم کی روک تھام سے زیادہ برسرِ اقتدار حکومتوں نے ہمیشہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیئے استعمال کیا ہے، جس محکمہ کے سپاہی کے خوف سے کبھی بڑے بڑے  عہد دار اور معاشرے کے سربر آورہ افراد  کانپتے تھے آج ہماری حکومتوں کی غلط روش کے سبب اور محکمہ میں بے جاسیاسی مداخلت کی وجہ اس محکمے کے اعلیٰ افسران وڈیروں اور چوہدریوں کے سامنے ہاتھ باندھے گڑ گڑا کر پیٹی ( بیلٹ) بچاتے نظر آتے ہیں یو ں معلوم ہوتا ہیکہ وہ سرکار کے نہیں بلکہ ان لوگوں کے ذاتی ملازم ہیں  ۔

حکومت کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد  کی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ذہنی تربیت کا انتظام کرنا چاہئیےے تا کہ انکی مینٹلی اپروچ امپروو ہو سکے اور وہ اس جدید دور میں جرائم کے جدید طریقوں سے بہتر طور پر نپٹ سکیں۔ اقوامِ متحدہ کے ذریعے یا اپنے طور پرپاکستان پولیس کے چھوٹے اہلکاروں (جن میں سپاہی بھی شامل ہوں )ایک منصفانہ چناؤ کے ذریعے دماغی اور تفتیشی تر بیت  تجربہ دیا جائے۔اور دوسرے ملکوں جن میں بہترین تربیتی مراکز ہیں ان میں  کچھ لوگوں کو ٹرینگ دیاجائے تاکہ وہ  اپنی ملک کی پولیس ادارے کی تربیت  کریں ۔

درجہ بالا بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والی اداروں اور حکومت کی غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے اور جزاو سزا کے عمل کے نا ہونےیا نہایت سست ہونے کی وجہ سے لوگ جوک درجوک مختلف قسم کے گھناؤنے جرائم سے وابستہ ہو رہے جو کے بعد میں بڑے ملزم بن کر بڑے دہشتگردوں یا ان کے حواریوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہئیے کہ وہ امن و امان قائم کرنے اور ظلم و نا انصافی کو مٹانے کے لیئے فوری اور مضبوط  اقدامات کرے تو انشاء اللہ  یہی اقدامات امن اور ملک کی بقا و سلامتی کے لیئے نئی روح اور طاقت کا سبب بنیں گے۔

جرائم کے اسباب میں ایک ظاہری سبب قانونی گرفت کا فقدان بھی ،خوف خدا نہ ہو تو بعض لوگ قانون کی خوف سے جرائم سے بچتے ہیں ۔ قانون جتنا سخت اور غیر لچک دار ہو تو لوگ جرم سے اتنا زیادہ  بچیں گے ، اگر قانون نرم اور لچکدار ہو تو مجرم جرم کے ارتکاب سے نہیں گھرائے گا ، مملکت خداداد میں مختلف وجوہات کی بناء پر قانون کی گرفت ڈھیلی اور غیر مؤثر ہے یہی وجہ ہے کہ آج تقریبا ہر فرد کی طبیعت میں بدمعاشی اور قانون شکنی اور خود انتظامی کا تصور پایا جاتا ہے ، لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بات موجود ہے کہ حکومت وعدالت کے پاس انصاف نہیں ، جس کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے .

عدم برداشت

جرائم کے اسباب میں کچھ حد عدم برداشت کا بھی عمل دخل ہے ،جب کسی شخص کے مزاج او ر طبیعت کے خلاف کوئی کام ہوجائے ،اور کسی سے  کوئی تکلیف پہنچ جائے ۔تو وہ قوت برداشت کی کمیابی کی وجہ سے اس کا انتقام لینے کے در پے ہو جاتاہے ۔حالانکہ   ہمیں تحمل اور برداشت سے کا م لینا چاہیئے کیونکہ تحمل  کی تعریف یہی ہے کہ کسی نہ گوار بات کو انتقام کی قدرت رکھتے ہوئے بھی برداشت کیا جائے ۔ اور کسی طرح کا بغض اپنے دل میں نہ رکھا جائے ۔کیونکہ  اسلام ہمیں ایسے موقع پر برداشت ، تحمل اور برد باری کا درس دیتا ہے  (۱۷)

وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (۱۸)

ترجمہ:وہ لوگ جو اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیںاور لوگوں کا قصور معاف کردیتے ہین ،اور اللہ تعالی احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

لوگوں کی خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کردینا  اخلاق میں ایک بڑا درجہ رکھتا ہے ،اور اس کا ثواب آخرت نہایت اعلی ہے ۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے ۔

  عن أبي بن كعب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سره أن يشرف له البنيان، وترفع له الدرجات فليعف عمن ظلمه، وليعط من حرمه، وليصل من قطعه» (۱۹)

ترجمہ : جو شخص یہ چاہے کہ اس کے محلات جنت میں اونچے ہوں اور اس کے درجات بلند ہوں اس کو چاہئے کہ جس نے اس پر ظلم کیا ہو اس کو معاف کردے اور جس نے اسکو کبھی کچھ نہ دیا ہو اس کو بخشش وہدیہ دیا کرے ،اور جس نے اس سے ترک تعلقات کیا ہو یہ اس سے ملنے میں پرہیز نہ کرے “

عن عقبة بن عامر، قال: لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي: ” يا عقبة بن عامر، صل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك “(۲۰)

ترجمہ:عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات ہوئی آپﷺ نے فرمایااے عقبۃ بن عامر،جو شخص آپ سے قطع تعلق کرے آپ ان سے ملیں،اور جو تجھے محروم کرے اسے دے دیں، اور جو آپ پر ظلم کرے آپ ان کو معاف کرے۔

جرائم کے اثرات

معاشرے میں مثبت اقدامات اور رویوں  کا مثبت اثر ہوتا ہے ،لیکن یہ اقدام اگر جرائم کی صورت میں منفی نوعیت اختیار کر لیں  تو اس کے اثرات بھی یقینا منفی نوعیت کے ہی ہوں گے ، معاشرے میں جرائم کی زیادتی ہو ،اور ان کے سدباب کےلیے سنجیدگی سے توجہ نہ  دی جائے اور ایسے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے جائیں تو معاشرے میں جرائم پھیل جاتے ہیں ، مثلا معاشرتی بگاڑ،اخلاقی اقدار کی پائمالی ،بدامنی ،معاشرتی تصادم کی زیادتی ،اجتماعی ترقی میں رکاوٹ،انفرادی اور اجتماعی زندگی میں گھٹن کا احساس ، فتنہ اور فساد کا برپا ہونا وغیرہ

جرائم کی تدارک یعنی روک تھام اور اصلاحی تجاویز

تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ اب تک کسی عہد میں بھی معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کو یکسر ختم نہیں کیا سکتا اور مجرمانہ سرگرمیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا نہیں جاسکتا، تاہم وقتی طور اجتماعی سطح پر ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں ، جن کی وجہ سے مجرمانہ سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے ، اور ایک خوشگواراور پر امن  ماحول و فضا کو بحال کیا جاسکتا ہےجرائم کی روک تھام کے سلسلے میں مختلف تدابیر اور اصلاحی تجاویز کی تفصیل ذیل میں پیش کی جا رہی ہے ۔

خوف خدا اورفکر  آخرت کی تعلیم دینا

اسلامی معاشرہ انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کرتا ہے اور افراد کو محبت و شفقت ،اتحاد وتعاون ،اخوت ،خدمت خلق ،فرمانبرداری ،ایثار اور قربانی جیسی صفاتوں  کو اپنانے اور حسد ،نفرت،خود عرضی ،تعصب وغیر ہ جیسی برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے ۔معاشرے سے جرائم کے رجحانات میں کمی کے لیے ہمیں سب سے پہلے لوگوں کے دل ودماغ میں خوف خدا اور آخرت کی فکر پیدا کرنا ہوگی ، اس سلسلہ میں ائمہ کرام پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مساجد میں منبر و محراب پر بیٹھ کر بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں تک اسلام کے زریں اصول پہنچائے ، اور مختلف جرائم  کے نقصانات سے مذہبی اصولوں کی روشنی میں لوگوں کو آگاہ کرتے رہے ، ان کے دلوں میں خوف خدا و آخرت پیدا کرے ، تاکہ ارتکاب جرم کے وقت ان باتوں کے تصور سے خوف زدہ ہوں ،اور جرائم سے بچنے میں مددملے ۔

معاشرتی و ثقافتی اقدار

جرائم کو کنٹرول کرنے میں معاشرتی اور ثقافتی اقدار بھی اہمیت  رکھتے ہیں ، جب تک معاشرے میں عملی طور پر برائی کے خلاف سخت رد عمل نہیں ہوگا ، اس وقت تک  جرائم کی جڑیں مضبوط رہیں گی ، معاشرے میں اعلی اقدار اور اچھے اخلاقکے زریعے    منفی اور غیر ذمہ دار انہ رویوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے ۔

معاشرتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھنا

تہذیب و تمدن کی ترقی کی وجہ سے مجرمانہ سرگرمیوں کی تکنیک میں جو ترقی ہوئی اور عادی جرائم پیشہ افراد ارتکاب جرم کے وقت جو نت نئے طریقے اپنا رہے ہیں ،تو سب سے پہلے ان تبدیلیوں کے اسباب پر غور کرنا ضروری ہے ، اگر معاشرے سے مجرمانہ سرگرمیوں کا خاتمہ کرنا ہے تو سب سے پہلے مجرمانہ سرگرمیوں کے محرکات معاشرے کے اندر ہی تلاشاور پھر اسکا قلع قمع  کرنا ضروری ہے ، کیونکہ جرائم  پیشہ عناصر اسی معاشرے کے افراد اور اجزاء ہیں   ،معاشرے کا حال یہ ہے کہ آج اس شخص جس میں مجرمانہ صلاحتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں ،اور جو جرم کے بعد  بچ نکلتا ہے معاشرے کا کامیاب فرد سمجھاجارہا ہے ، اس طرز عمل بلکہ اجتماعی قومی بے حسی نے مجرمانہ سرگرمیوں کے فرع میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ اس سوث اور اجتماعی غلطی کی حوصلہ شکنی بد عنوانی اور مجرمانہ سر گرمیوں کے خاتمہ کیلئے از حد ضروری ہے ۔

تعلیمی اداروں کا قیام

اللہ تعالی نے ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایا اور ماتحت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے ۔اور اس کے لئے تعلیمی  ماحول پیدا کرے ۔تاکہ ہر شہری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوجائے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے

اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (۲۱)

ترجمہ :” پڑھئے اور تمہارا رب کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا “

ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے ۔

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ  (۲۲)

ترجمہ :” کہہ دیجیےکہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں”

حضور ﷺ نے فرمایا :

عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من خرج في طلب العلم فهو في سبيل الله حتى يرجع»(۲۳)

ترجمہ : “جو کوئی علم کی طلب میں گھر سے نکلا تو وہ اللہ کے راستے میں ہے جب تک واپس نہ لوٹے “

مجرمانہ ذھنیت کےخاتمے اور جرائم کی بیخ کنی کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو اس  کیلئے تعلیمی ادارے قائم ہونے چاہیئے ، اوربالخصوص  پرائمری سطح پرتعلیم  کوخصوصی توجہ دیا جائے۔میٹرک تک کم از کم مفت تعلیم کا انتظام ہونا چاہیئے ، تاکہ وہ بچے جو تعلیمی اداروں میں غربت کے سبب تعلیم حاصل نہیں کرسکتے  ، ان کا معقول انتظام ہو ، دوسری یہ کہ چھٹی جماعت سے جرمیات کے بارے میں مختلف کتب لازمی طور پر نصاب میں شامل کیے جائیں ، تاکہ ابتدائی عمر سے بچہ  جرائم کے مضر  اثرات سے آگاہ ہو ۔

بے روزگاری کا خاتمہ

ملک سے بے روزگاری کے مسئلے کو دور کیا جائے ، صنعتوں کو فروغ دیا جائے ، بے روز گاری سےتنگ آکر انسان  ہر قسم جرائم کا ارتکاب جائز اور اپنا حق سمجھتا ہے   ، معاشرے سے جرائم کے خاتمے کے لیے بے روز گاری کا خاتمہ انتہائی  ضرری ہے ۔

جیلوں کے نظام پرخصوصی توجہ

تدارک جرائم اور معاشرہ سے بدامنی کو دور کرنے میں سز اکی ضرورت مسلم ہے ، جس کے لئے مجرم کو  جیلوں میں قید کرنے کا نظام وضع کیا گیا ہے،لیکن اگر موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ آج کل اس سزا سے کوئی خاطر  خواہ فائدہ نہیں ہو رہا ہے ، بلکہ مجرم جیل کاٹنے کے بعد جرائم کا خوگر  بن جاتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جیل خانوں میں سنگین جرم کرنے والے عادی مجرمان اور پہلی مرتبہ معمولی جرم کرنے والے مجرموں کو ایک ہی جگہ میں رکھا جاتا ہے ، ان سب قسم کے لوگوں کو ایک ماحول میں رکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جرم کے جراثیم پھیل جاتے ہیں ، عادی مجرم جیل کی چار دیواری میں رہتے ہوئے اپنا آلہ کار بنالیتے ہیں ، اور یوں جیلوں کا اصل مقصود ( جرائم سے باز رکھنا ) فوت ہو جاتا ہے ، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب حکومت جیلوں کے نظام پر توجہ دے کر اسے بہتر کرے، جیلوں کے اندر اسلامی اور اخلاقی تعلیم کا معقول بندوبست کیا جائے ، عام جرائم کے مرتکب قیدی کو عادی سنگین جرائم کے قیدیوں سے الگ رکھا جائے تاکہ وہ ان کے اثرات سے محفوظ رہے ۔

مجرم کے تعین کی ضرورت

جرائم کی روک تھام میں مجرم کی تعین بھی بہت ضروری ہے ،ہمارے ہاں تو یہی ہوتا ہے کہ پولیس کے ناقص تفتیش کی وجہ سے اصل ملزم بچ جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے مزید حوصلہ مل جاتا ہے اور پھر وہ باقاعدگی کے ساتھ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کی تفتیش معیاری ہو تاکہ اصل ملزم ہی قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکے ۔ اور اصل مجرم کا تعین  ہوجائے ۔اور اسی سبب مزید جرم پیشہ عناصر  کے لیے عبرت ہو۔

حواشی و حوالہ جات 

۱            چیئرمین جسٹس ایس اےرحمان ،اردو جامع انسائیکلوپیڈیا ،ج۲،ص۱۵۸۲،شیخ غلام علی اینڈ سنن، کراچی /فیروز سنز، اردو انسائیکلوپیڈیا ،ص۱۳۳۲،لاہور ،۲۰۰۵ء۔

۲           چیئرمین جسٹس ایس اےرحمان ،اردو جامع انسائیکلوپیڈیا ،ج۲،ص۴۶۲،شیخ غلام علی اینڈ سنن، کراچی      فیروز الدین، فیروز اللغات اردو، ص۴۵۶، فیروز سنز لاہور۔

۳       MAJOR ACTS میاں انعام الحق، عمر اسعد، میجر ایکٹس ،منصور بک ہاؤس 2  کچہری روڈ ،لاہور،۲۰۱۵ء۔        

۴           القرآن ،الروم۳۰ :۴۱

۵           القرآن ،الشوری۴۲ :۳۰

۶           القرآن ،المائدۃ ۵: ۲

۷           القرآن ،الحجرات ۴۹: ۱۰

۸           البخاری (م۲۵۶ھ) ،ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل ،صحیح البخاری ،کتاب الایمان ،باب من الایمان ان یحب لاخیہ مایحب لنفسہ ،ج۱،ص۱۲ رقم الحدیث ۱۳،دار طوق النجاۃ ۱۴۲۲ھ۔

۹            البخاری (م۲۵۶ھ)،محمد بن اسماعیل ،صحیح البخاری ،كتاب الشركة، باب هل يقرع في قسمة والاستهام فيه،ج۳،ص۱۳۹،رقم الحدیث ۲۴۹۳،دار طوق النجاۃ،۱۴۲۲ھ۔

۱۰          القرآن، سورۃ المائدۃ ۵: ۱۰۵

۱۱           الترمذی (م۲۷۹ھ)،محمد بن عیسی ، سنن الترمذی ،ج۴،ص۴۶۷،رقم الحدیث ۲۱۶۸،ابواب الفتن،باب ما جاء في نزول العذاب اذالم يعير المنكر ،شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃمصطفی البابی الجلبی ۔مصر۔

۱۲           القرآن ،سورۃ المائدۃ ۵: ۱۰۵

۱۳          ابوداود(م۲۷۵ھ) ،سلیمان بن اشعث،سنن ابی داؤد ، کتاب الملاحی ،باب الامر والنهي،ج۴،ص۱۲۱،  رقم الحدیث ۴۳۲۶،مکتبۃ رحمانیۃ لاہور۔

۱۴          البیہقی(م۴۵۸ھ)،ابو بکر احمد بن الحسین ،شعب الایمان ،ج۹،ص۱۲،رقم الحدیث ۶۱۸۸،مکتبہ الرشد للنشر والتوزیع بالریاض،۱۴۲۳ھ۔۲۰۰۳م۔

۱۵          القرآن ،النحل ۱۶: ۹۰

۱۶          القرآن ،النساء۴: ۵۸

۱۷          معاویہ ،محمد ھارون ،اصلاح معاشرہ کے رھنما اصول ،اصول نمبر ۲۱،ص۵۰۲،دار الاشاعت اردو بازار،ایم اےجناح روڈ کراچی پاکستان ،۲۰۰۶ء

۱۸          القرآن ،المائدۃ۵ :۷۸

۱۹           الطبرانی(م۳۶۰ھ)،ابو اقاسم سلیمان بن احمد،مکارم الاخلاق للطبرانی،باب فضل العفو عن الناس،ج۱،ص۳۳۲،رقم الحدیث۵۷،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان،۱۴۰۹ھ۔۱۹۸۹م۔

۲۰         الشیبانی(م۲۴۱ھ)،ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل،مسند الامام احمد بن حنبل، ج۲۸،ص۶۵۴،،رقم الحدیث۱۷۴۵۲،مؤسسہ الرسالۃ الأرنؤوط،عادل مرشد،۱۴۲۰ھ،۲۰۰۱م۔

۲۱          القرآن ،العلق ۹۶:  ۴،۳

۲۲          القرآن ،الزمر۳۹ : ۹

۲۳         الترمذی (م۲۷۵ھ)،محمد بن عیسی ،جامع الترمذی ،باب ابواب العلم ،با ب فضل طلب ۔ج۵،ص۲۹،رقم الحدیث۲۶۴۷، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر،۱۳۹۵ھ۔۱۹۷۵ء۔



0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *