علماء انبیاء کے وارث ہیں:۔
امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب العلم میں باب العلم قبل القول کے ضمن میں لکھا ہے: علماء ہی انبیاے کرام کے وارث ہیں ،جنہوں نے علم کا ورثہ حاصل کیا۔
حدیث:۔
امن سلك طريقًا يطلبُ فيه علمًا ، سلك اللهُ به طريقًا من طرُقِ الجنَّةِ ، وإنَّ الملائكةَ لَتضعُ أجنحتَها لطالبِ العلمِ رضًا بما يصنع ، وإنَّ العالمَ لَيستغفرُ له مَن في السمواتِ ، ومن في الأرضِ ، والحيتانُ في جوفِ الماءِ ، وإنّ فضلَ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ ليلةَ البدرِ على سائرِ الكواكبِ ، وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ ، وإنَّ الأنبياءَ ، لم يُوَرِّثوا دينارًا ، ولا درهمًا ، إنما وَرّثوا العلمَ ، فمن أخذه أخذ بحظٍّ وافرٍ۔
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الألباني – المصدر: صحيح الجامع – الصفحة أو الرقم: 6297
خلاصة حكم المحدث: صحيح۔
علم دین کی تلاش میں عالم کی فضیلت عابد پر۔
قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء رضی الله عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی الله عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں۔
سیدنا ابو الدرداء رضی اللّہ عنہ فرمایا:۔
ابو الدرداء نے کہا: (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللّہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے علم نبوی اور وراثت نبوی سے پورا پورا حصہ لیا
حدیث نبوی صلی الله علیه و آله وسلم
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العلم۔ 1- (3641)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (223) (تحفة الأشراف : 10958)، وسنن الدارمی/المقدمة۔ 32- (354) (صحیح) (سند میں کثیر بن قیس، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: زہد وکیع رقم 519)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (223)
دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے میں علماے کرام کا کردار کیسے؟
- دینی تعلیمات کا صحیح فروغ
- بین المذاہب اور بین الفرقہ پرستی کے خاتمے کے لئے آپسی ہم آہنگی کو فروغ دینا
- انتہا پسندی کے نظریات کی تردید و خاتمہ
- امن کے پیغامات کا پھیلاؤ
- حکومت کے ساتھ تعاون
- عوامی فلاحی منصوبے اور سماجی خدمات۔
- نوجوان نسل کی تربیت علماے کرام کی اوّل ذمہ داری ہے ۔ کیوں کہ علماء وارث ہیں اس دینِ حق کے
علماے کرام کا کردار معاشرے کی بہتری کے لئے۔
علماء انبیاء کے وارث ھیں:- علماے کرام، اہل علم و دانشوروں کے امام ہیں- مہذب معاشرے میں علما کرام کا عزت و احترام: صلاحِ معاشرہ میں علماے کرام کا کردار – معاشرے میں علماء کا کردار۔ معاشرے میں علماء کرام اور دینی مدارس کا کردار۔ دور حاضر میں علماء کا کردار – اصلاح معاشرہ کیوں اور کیسے؟ علماء کا مقام اور اُن کی زمہ داریاں؟ قیام امن میں علماء کا کردار ؟ معاشرے کی تشکیل میں علماء اور مساجید کا کردار؟ معاشرے میں علماء کا عمل دخل کیا اور کتنا ہونا چاہیے؟ خاندانی نظام کو بچانے میں علماء کا کردار کیا ہونا چاہئیے؟ لوگوں کی تعلیم و تربیت میں علما اپنا بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اسلامی نظریاتی معاشرتی ملکی نظام۔
لا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي المَعْرُوفِ ۔- ۔ اللّٰہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں، طاعت تو معروف معاملہ میں ہے۔
مسلمانی معاشره ایک اسلامی نظریاتی معاشرہ ہے۔ جس میں رہنے والے مسلمان اسلامی عقائد اور اسلامی نظام حیات کے تحت زندگی بسر کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر اسلامی معاشرہ انسانی جمہوریت و حاکمیت کے بجائے اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول کریم ﷺ پر مبنی نظریاتی نظام ہوتا ہے۔ اور اس نظریاتی نظامِ اطاعت کی وضاحت معاشرے میں رہنے والے علماے کرام ہی کرتے ہیں۔
حکمران اور علماے کرام
اور سرکاری حکام علیٰ و ملک و معاشرے کے لیڈر ذمہ داران اس اسلامی نظریاتی نظام کی پیروی کرتے ہیں۔ قرآن و سنت کے بیان کردہ دائرہ کار میں ہی حکام کی اطاعت مشروط ہے، اگر حکام اعلیٰ اللّٰہ پاک کے حکم کی خلاف ورزی اور نافرمانی کر رہے ہوں تو، ان حکام کی اطاعت لازمی نہیں۔ بلکہ علماے کرام حکام وقت کو اسلامی نظریاتی عدالت میں لیکر آئیں۔ پھر عدالت شریعت کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ گویا حکام کی اطاعت کی بنیاد بھی کتاب و سنّت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت گناہ ہے۔
اللّٰہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں، اطاعت تو معروف معاملہ میں ہے۔ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، اور گناہ وسرکشی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
علماے کرام کا کردار مسلم معاشرے میں کیا ہے؟
مسلم معاشرہ میں علمائے کرام کی اہمیت غیرمعمولی ہے کیونکہ کتاب وسنت کا کسی معاملہ پر اطلاق اور اُن کی تشریح و رہنمائی کا ہی محتاج ہے۔ معاشروں کی صلاح و فلاح بہبود اور حکمرانوں کی اطاعت کے باب میں ان کی ہدایت و رہنمائی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
شیخ الاسلام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ فرماتے ہیں۔
مسلمانوں کے معاشرے کے اُولی الامر یعنی حکمراں دو قسموں کے ہیں:- حکام اور علماء دین، جب ان دونوں کی اصلاح ہوگئی تو عوام کی بھی اصلاح ہوجائے گی۔ ان دونوں کو اپنے قول وکردار میں اللّٰہ اور اس کے رسول عربی ﷺ کی اطاعت اور اتباع کی جستجو کرنا چاہیے۔ اور جب بھی مشکل مسائل میں کتاب وسنّت کے دلائل کی معرفت ممکن ہو تو اُسی کو لینا ضروری ہے۔
الغرض یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی اصلاح و فلاح و بہبود کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے۔ اور رہنمائی علما و حکمران کی اصلاح پر منحصر ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک نظریۂ حکم واضح کرتے ہیں تو دوسرے اس کی تنفیذ کرتے ہیں۔ وہی مسلم معاشرے دین و دنیا میں کامیاب وکامران ہوتے ہیں جہاں حکمران اور علماء ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ، آپسی ہم آہنگی کے ساتھ معاشرے کو سراط مستقیم کے سمت لے کر چلتے ہیں۔
0 Comments