علامہ اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی خامیاں؟

علامہ اقبال، برصغیر کے مشہور فلسفی، شاعر اور مفکر تھے جنہوں نے مغربی تہذیب پر شدید تنقید کی۔ ان کی نظر میں مغربی تہذیب کی کچھ اہم خامیاں درج ذیل ہیں:

  1. مادہ پرستی: اقبال کے مطابق، مغربی تہذیب کا زیادہ تر زور مادہ پرستی پر ہے، جو انسان کو روحانیت اور اخلاقیات سے دور کر دیتی ہے۔ ان کے خیال میں، مغربی معاشرہ دولت اور طاقت کے حصول پر مرکوز ہے، جس سے انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی رک جاتی ہے۔
  2. فرد پرستی: اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب فرد کی پرستش کرتی ہے، جس سے اجتماعی زندگی کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ ان کے خیال میں، یہ فرد پرستی معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہے اور انسان کو خودغرض بناتی ہے۔
  3. اخلاقی زوال: اقبال کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب میں اخلاقیات کی کمی ہے۔ ان کے مطابق، مغربی معاشرہ اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے مفادات کی پیروی کرتا ہے، جس سے معاشرتی اور انسانی قدریں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
  4. روحانیت کی کمی: اقبال کے خیال میں، مغربی تہذیب میں روحانیت کی کمی ہے۔ ان کے مطابق، روحانی بیداری کے بغیر انسان کی حقیقی ترقی ممکن نہیں ہے۔ مغربی تہذیب صرف مادی ترقی پر زور دیتی ہے جبکہ روحانی ترقی کو نظرانداز کرتی ہے۔
  5. انسانی رشتوں میں سرد مہری: اقبال کے مطابق، مغربی معاشرہ میں انسانی رشتے کمزور ہو گئے ہیں اور لوگوں میں سرد مہری اور افراتفری بڑھ گئی ہے۔ ان کے خیال میں، اس کی بنیادی وجہ مغربی تہذیب کا خودغرضانہ رویہ اور مادہ پرستی ہے۔

اقبال کی تنقید کا مقصد صرف خامیوں کی نشاندہی کرنا نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنے فلسفہ خودی کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی پر زور دینے کی ترغیب دی۔ ان کے مطابق، ایک متوازن اور پرُامن معاشرہ تب ہی وجود میں آ سکتا ہے جب انسان مادیت کے بجائے روحانیت اور اخلاقیات کو اپنی زندگی کا محور بنائے۔

اقبال کے نزدیک یورپی مادیت پرستی؟

علامہ اقبال کے نزدیک یورپی مادیت پرستی ایک اہم موضوع تھا جس پر انہوں نے اپنی شاعری اور فلسفے میں تفصیلی تنقید کی۔ یورپی مادیت پرستی کے حوالے سے اقبال کے خیالات کچھ اس طرح ہیں:

1. روحانیت کی کمی

اقبال کے نزدیک یورپی مادیت پرستی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں روحانیت کی کمی ہے۔ اقبال کے خیال میں، روحانیت انسان کی زندگی کا لازمی حصہ ہے جو اسے اعلیٰ اخلاقی اقدار اور حقیقی سکون کی طرف لے جاتی ہے۔ یورپی مادیت پرستی نے انسان کو اس سے محروم کر دیا ہے۔

2. اخلاقی زوال

اقبال کے مطابق، یورپی مادیت پرستی نے انسانی معاشرت میں اخلاقی زوال پیدا کیا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ مغربی معاشرت میں دولت اور طاقت کے حصول کے لیے اخلاقی اصولوں کو قربان کیا جا رہا ہے، جس سے انسان کی اخلاقی قدریں متاثر ہو رہی ہیں۔

3. فرد پرستی

یورپی مادیت پرستی نے فرد پرستی کو فروغ دیا ہے، جہاں انسان صرف اپنے ذاتی مفادات کو اہمیت دیتا ہے اور معاشرتی ہم آہنگی اور اجتماعی مفادات کو نظرانداز کرتا ہے۔ اقبال کے خیال میں، یہ رویہ معاشرتی تقسیم اور نفاق کا باعث بنتا ہے۔

4. انسانی رشتوں میں سرد مہری

اقبال کا ماننا تھا کہ یورپی مادیت پرستی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں اور انسانی تعلقات میں سرد مہری اور بےحسی پیدا ہو گئی ہے۔

5. مصنوعی خوشی

اقبال کے مطابق، یورپی مادیت پرستی نے انسان کو مصنوعی خوشی کی تلاش میں ڈال دیا ہے۔ انسان مادی چیزوں میں خوشی ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے، مگر حقیقی خوشی روحانیت اور اخلاقی ترقی میں پوشیدہ ہوتی ہے، جو مادیت پرستی سے حاصل نہیں ہو سکتی۔

6. استحصال اور نابرابری

اقبال نے یورپی مادیت پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے استحصال اور نابرابری پر بھی تنقید کی۔ ان کے خیال میں، مغربی نظام معیشت نے امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو بڑھا دیا ہے اور استحصال کے ذریعے انسانیت کو نقصان پہنچایا ہے۔

7. قدرت سے دوری

اقبال کے نزدیک یورپی مادیت پرستی نے انسان کو قدرت سے دور کر دیا ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مغربی معاشرہ صنعتی ترقی اور مادی فوائد کی خاطر قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، جس سے قدرتی توازن بگڑ گیا ہے۔

اقبال کی ان تنقیدات کا مقصد لوگوں کو اس بات کا شعور دلانا تھا کہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی اور اخلاقی ترقی بھی ضروری ہے۔ ان کے فلسفہ خودی میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انسان کو اپنی روحانی قوتوں کو پہچاننا اور ان کو بروئے کار لانا چاہیے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں کامیاب اور خوشحال ہو سکے۔

اقبال کے نزدیک یورپ کی اقلیت پرستی؟ (Racialism یا Racism)

علامہ اقبال نے یورپ کی اقلیت پرستی پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ اقبال کے نزدیک، یورپی اقلیت پرستی نے نہ صرف یورپی معاشرت کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ پوری دنیا میں انتشار اور نفاق کو فروغ دیا ہے۔ ان کے خیالات کچھ اس طرح تھے:

1. نسلی امتیاز

اقبال کے نزدیک یورپ میں نسلی امتیاز ایک بڑی خرابی تھی۔ ان کے خیال میں، یورپی قوموں نے خود کو دوسری قوموں سے برتر سمجھا اور اس برتری کے نظریے کو استحکام دیا۔ یہ نسلی امتیاز معاشرتی نابرابری اور ظلم و ستم کا باعث بنا۔

2. نوآبادیاتی استحصال

اقبال کے نزدیک یورپی اقلیت پرستی کا ایک اور پہلو نوآبادیاتی استحصال تھا۔ یورپی طاقتوں نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک پر قبضہ کیا اور وہاں کے لوگوں کو کمتر سمجھا۔ ان پر ظلم و ستم کیا اور ان کے وسائل کا استحصال کیا۔

3. انسانیت کی تقسیم

اقبال نے محسوس کیا کہ یورپی اقلیت پرستی نے انسانیت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ انہوں نے انسان کو نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کیا، جس سے انسانیت کی یکجہتی کو نقصان پہنچا۔

4. نفرت اور دشمنی کا فروغ

یورپی اقلیت پرستی نے مختلف قوموں اور ثقافتوں کے درمیان نفرت اور دشمنی کو فروغ دیا۔ اقبال کے نزدیک، یہ رویہ انسانیت کے لئے تباہ کن تھا کیونکہ اس نے بین الاقوامی تعلقات کو خراب کیا اور امن و سکون کو متاثر کیا۔

5. اخلاقی زوال

اقبال کے خیال میں، یورپی اقلیت پرستی نے اخلاقی زوال کو جنم دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ یورپی قومیں اپنے نسلی برتری کے نظریے کی بنیاد پر اخلاقی اصولوں کو نظرانداز کر کے ظلم اور ناانصافی کر رہی ہیں۔

6. تعلیم و تربیت کا اثر

اقبال نے یہ بھی نشاندہی کی کہ یورپی اقلیت پرستی نے تعلیم و تربیت کے نظام کو بھی متاثر کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ یورپی نظام تعلیم میں نسلی امتیاز کو فروغ دیا گیا اور اس کے ذریعے نسل پرستی کے نظریات کو نئی نسل تک پہنچایا گیا۔

7. اسلامی اصولوں سے انحراف

اقبال کے نزدیک، یورپی اقلیت پرستی اسلامی اصولوں سے انحراف تھا۔ اسلام میں تمام انسانوں کو برابر اور ایک ہی خاندان کا رکن سمجھا جاتا ہے، جبکہ یورپی اقلیت پرستی نے اس اصول کے خلاف کام کیا۔

8. روحانی اور اخلاقی انحطاط

اقبال کے خیال میں، یورپی اقلیت پرستی نے روحانی اور اخلاقی انحطاط کو فروغ دیا۔ ان کے مطابق، انسانیت کی سچی ترقی روحانی اور اخلاقی اصولوں کی پیروی میں ہے، اور یورپی اقلیت پرستی نے ان اصولوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

اقبال کی ان تنقیدات کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان خرابیوں سے واقف ہوں اور ایک بہتر، منصفانہ اور مساوی معاشرت کی تعمیر کی طرف بڑھیں۔ ان کے فلسفہ خودی اور ان کی شاعری میں ان اصولوں کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ انسانیت اپنی حقیقی قدر اور وقار کو پہچانے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئے۔

اقبال کے نزدیک سائنس کی ہلاکت آفرینی؟ “destructive aspects of science”

علامہ اقبال کے نزدیک سائنس کی ہلاکت آفرینی یا پر تنقید ایک اہم موضوع ہے۔ انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے فوائد کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے منفی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی تنقید کا محور یہ تھا کہ اگر سائنس کو محض مادی فوائد کے لیے استعمال کیا جائے اور اخلاقی و روحانی اقدار کو نظرانداز کیا جائے تو یہ انسانیت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اقبال کے خیالات اس حوالے سے کچھ اس طرح ہیں:

1. مادیت پرستی کا فروغ

اقبال کے نزدیک، سائنس کی ہلاکت آفرینی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس نے مادیت پرستی کو فروغ دیا ہے۔ لوگوں کی توجہ مادی چیزوں اور دنیاوی فائدوں کی طرف مرکوز ہو گئی ہے اور روحانیت و اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

2. اخلاقی اقدار کی کمی

اقبال نے محسوس کیا کہ سائنس کی ترقی کے ساتھ اخلاقی اقدار کی کمی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق، سائنس اگر اخلاقی اصولوں سے خالی ہو تو یہ انسانیت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

3. جنگ اور تباہی

اقبال نے سائنس کی ہلاکت آفرینی کا ذکر کرتے ہوئے جنگ اور تباہی کا بھی حوالہ دیا۔ ان کے خیال میں، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے جنگی ہتھیاروں کی تیاری میں بڑا کردار ادا کیا ہے، جس سے انسانیت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

4. قدرتی توازن کی بگڑتی صورتحال

اقبال نے سائنس کے بے دریغ استعمال سے قدرتی توازن کے بگڑنے کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انسان نے اپنی مادی خواہشات کے حصول کے لئے قدرتی وسائل کا بے جا استعمال کیا ہے، جس سے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچا ہے۔

5. انسانی رشتوں میں سرد مہری

اقبال کے نزدیک، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی رشتوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ لوگوں میں سرد مہری اور خودغرضی بڑھ گئی ہے اور انسانی تعلقات میں محبت اور احترام کم ہو گئے ہیں۔

6. روحانی زوال

اقبال کے خیال میں، سائنس کی ترقی نے روحانی زوال کو بھی فروغ دیا ہے۔ ان کے مطابق، سائنس نے انسان کو مادیت کی طرف مائل کر دیا ہے اور روحانی اقدار کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔

7. سائنس اور مذہب کا تضاد

اقبال نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سائنس اور مذہب کو متضاد نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ان کے خیال میں، اگر سائنس کو مذہبی اور اخلاقی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے تو یہ انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔

8. انسانی خودی کی بیداری

اقبال کا فلسفہ خودی اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کو اپنی خودی اور اندرونی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہیے۔ ان کے نزدیک، سائنس کی ترقی کا مقصد انسان کی خودی کی بیداری ہونا چاہیے نہ کہ محض مادی فوائد کا حصول۔

اقبال کی تنقید کا مقصد یہ تھا کہ سائنس کو انسانی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی اقدار کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ ان کے مطابق، سائنس اور روحانیت کا متوازن امتزاج ہی انسانیت کی حقیقی ترقی کا ضامن ہے۔

مگر اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی خوبیاں؟

علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کی خامیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ اس کی کچھ خوبیوں کو بھی تسلیم کیا اور ان کی تعریف کی۔ ان کے نزدیک، مغربی تہذیب کی کچھ اہم خوبیاں درج ذیل ہیں:

1. علم اور تحقیق کی قدر

اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے علم اور تحقیق کو بہت اہمیت دی ہے۔ مغربی معاشرہ نے سائنسی تحقیق اور جدید علوم میں بے پناہ ترقی کی ہے، جس سے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بہتری آئی ہے۔

2. تنظیم اور انضباط

اقبال نے مغربی تہذیب کی تنظیم اور انضباط کی تعریف کی۔ ان کے خیال میں، مغربی معاشرتی اور اقتصادی نظام میں تنظیم اور قواعد و ضوابط کی پابندی سے ترقی کی رفتار تیز ہوئی ہے۔ یہ انضباط اور تنظیمی صلاحیت قابل تقلید ہے۔

3. انسانی حقوق اور جمہوریت

اقبال نے مغربی تہذیب میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے اصولوں کی بھی تعریف کی۔ ان کے نزدیک، مغربی معاشرہ میں انفرادی آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسداری کی جاتی ہے، جو کہ انسانی ترقی اور انصاف کے لئے ضروری ہیں۔

4. تعلیم کا فروغ

اقبال نے مغربی تہذیب میں تعلیم کے فروغ کو بھی سراہا۔ ان کے خیال میں، مغربی ممالک نے تعلیم کو عام کرنے اور علم کی روشنی کو ہر فرد تک پہنچانے میں بہت کام کیا ہے، جو کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

5. تکنیکی ترقی

اقبال نے مغربی تہذیب کی تکنیکی ترقی اور صنعتی انقلاب کی بھی تعریف کی۔ ان کے مطابق، مغربی ممالک نے صنعت، ٹیکنالوجی اور سائنس میں بے مثال ترقی کی ہے، جس سے دنیا کی معیشت اور انسانی زندگی کے معیار میں بہتری آئی ہے۔

6. وقت کی قدر

اقبال نے مغربی تہذیب میں وقت کی قدر اور اس کے موثر استعمال کی بھی تعریف کی۔ ان کے خیال میں، مغربی معاشرہ وقت کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور اس کا صحیح استعمال کرتا ہے، جو کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔

7. قانون کی بالادستی

اقبال نے مغربی تہذیب میں قانون کی بالادستی اور انصاف کے نظام کی بھی تعریف کی۔ ان کے نزدیک، مغربی معاشروں میں قانون کی عملداری اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے، جو کہ ایک منصفانہ اور پرامن معاشرت کے لئے لازمی ہے۔

8. سماجی بہبود کے ادارے

اقبال نے مغربی تہذیب میں سماجی بہبود کے اداروں کی بھی تعریف کی۔ ان کے خیال میں، مغربی ممالک نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مختلف ادارے قائم کئے ہیں جو کہ قابل تقلید ہیں۔

اقبال کے نزدیک، اگرچہ مغربی تہذیب میں کئی خامیاں ہیں، مگر اس کی کچھ خوبیاں بھی ہیں جنہیں اپنانا اور ان سے سیکھنا مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ ان کے خیال میں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مغربی تہذیب کی خوبیوں کو اپنائیں اور ان کی خامیوں سے بچنے کی کوشش کریں، تاکہ وہ ایک متوازن اور ترقی یافتہ معاشرت کی تشکیل کر سکیں۔

اقبال کے نزدیک یورپ میں اندھی تقلید کی مذمت؟

علامہ اقبال کے نزدیک یورپ کی اندھی تقلید کی مذمت ایک اہم موضوع ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ وہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نہ کریں بلکہ اپنے دین، ثقافت اور تاریخ کی روشنی میں ایک منفرد اور خود مختار راستہ اپنائیں۔ اقبال کی تنقید کچھ اس طرح ہے:

1. خود اعتمادی کا فقدان

اقبال کے نزدیک، اندھی تقلید سے خود اعتمادی کا فقدان پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے اور اپنی تہذیب اور ثقافت کی بنیاد پر اپنی راہیں خود تلاش کرنی چاہئیں۔

2. روحانی اور اخلاقی زوال

اقبال نے مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کو روحانی اور اخلاقی زوال کا سبب قرار دیا۔ ان کے نزدیک، مغربی مادیت پرستی اور اخلاقی اقدار کی کمی مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی ترقی کو متاثر کر سکتی ہے۔

3. فکری جمود

اقبال کے خیال میں، اندھی تقلید فکری جمود کا باعث بنتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنی فکری آزادی کو برقرار رکھیں اور اپنی سوچ و فکر میں اجتہاد (اجتہادی فکر) کو فروغ دیں۔

4. تہذیبی تشخص کا نقصان

اقبال نے کہا کہ اندھی تقلید سے مسلمانوں کا تہذیبی تشخص متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ اپنی تہذیب، زبان، لباس اور معاشرتی اقدار کو برقرار رکھیں اور ان پر فخر کریں۔

5. تعلیم اور تربیت کا معیار

اقبال نے مغربی نظام تعلیم کی اندھی تقلید کی بھی مذمت کی۔ ان کے نزدیک، مسلمانوں کو اپنے نظام تعلیم کو اسلامی اقدار کے مطابق ترتیب دینا چاہیے اور مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔

6. معاشرتی نابرابری

اقبال نے مغربی معاشرت میں موجود نابرابری اور استحصال کی بھی مذمت کی اور کہا کہ مسلمانوں کو ان سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنی معاشرتی انصاف اور مساوات کی قدروں کو فروغ دینا چاہیے۔

7. تخلیقی صلاحیتوں کا خاتمہ

اقبال کے نزدیک، اندھی تقلید تخلیقی صلاحیتوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور اپنے مسائل کا حل خود تلاش کریں۔

8. دینی اقدار کی اہمیت

اقبال نے زور دیا کہ مسلمانوں کو اپنی دینی اقدار کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے نزدیک، اسلام کی تعلیمات ہی مسلمانوں کی زندگی کی حقیقی رہنمائی فراہم کرتی ہیں اور انہیں کامیاب بناتی ہیں۔

9. مغربی تہذیب کی خامیوں سے اجتناب

اقبال نے مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کی بجائے ان کی خوبیوں کو اپنانے اور خامیوں سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے نزدیک، مسلمانوں کو مغربی تہذیب سے سیکھنا چاہیے لیکن ان کی اندھی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔

اقبال کا پیغام تھا کہ مسلمان اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کریں اور مغربی تہذیب کی اچھی چیزوں کو اپنائیں لیکن ان کی خامیوں سے بچیں۔ ان کے نزدیک، اسلامی تعلیمات اور اقدار کی روشنی میں ایک متوازن اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دینا ضروری ہے۔

اقبال کی پسندیدہ تہذیب؟

علامہ اقبال کی پسندیدہ تہذیب وہ ہے جو اسلامی اصولوں اور اقدار پر مبنی ہو۔ انہوں نے اسلامی تہذیب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کو اجاگر کیا اور مسلمانوں کو اپنی تہذیب کی بنیاد پر ایک مضبوط اور متوازن معاشرہ تشکیل دینے کی ترغیب دی۔ اقبال کی پسندیدہ تہذیب کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:

1. روحانیت اور اخلاقیات

اقبال کے نزدیک اسلامی تہذیب کی بنیاد روحانیت اور اخلاقیات پر ہے۔ ان کے خیال میں، اسلامی تہذیب انسان کو مادی فوائد کے ساتھ ساتھ روحانی سکون اور اخلاقی بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔

2. انصاف اور مساوات

اسلامی تہذیب میں انصاف اور مساوات کی بہت اہمیت ہے۔ اقبال نے زور دیا کہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ وہ ہے جہاں ہر فرد کو انصاف ملے اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔

3. علم اور تعلیم

اقبال نے اسلامی تہذیب میں علم اور تعلیم کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ ان کے نزدیک، اسلام نے ہمیشہ علم حاصل کرنے اور تحقیق کی ترغیب دی ہے، جو کہ کسی بھی تہذیب کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔

4. اخوت اور بھائی چارہ

اقبال نے اسلامی تہذیب میں اخوت اور بھائی چارے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ان کے خیال میں، اسلام نے ہمیشہ امت کے اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دیا ہے، جو کہ ایک مضبوط معاشرت کی بنیاد ہے۔

5. حریت اور خودی

اقبال نے اسلامی تہذیب میں حریت اور خودی کے اصولوں کی بھی تعریف کی۔ ان کے نزدیک، اسلام نے فرد کو آزادی اور خودی کی اہمیت سکھائی ہے، جو کہ خود اعتمادی اور خود انحصاری کے لئے ضروری ہے۔

6. تخلیقی اور اجتہادی فکر

اقبال نے اسلامی تہذیب میں اجتہاد اور تخلیقی فکر کی بھی تعریف کی۔ ان کے نزدیک، اسلامی تہذیب نے ہمیشہ اجتہاد کو فروغ دیا ہے، جو کہ جدید مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے۔

7. عالمی اخوت

اقبال کے نزدیک اسلامی تہذیب عالمی اخوت اور بھائی چارے کی تعلیم دیتی ہے۔ ان کے خیال میں، اسلام نے ہمیشہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالمی اخوت کو فروغ دیا ہے۔

8. قدرت کے ساتھ ہم آہنگی

اقبال نے اسلامی تہذیب میں قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کی بھی تعریف کی۔ ان کے نزدیک، اسلام نے ہمیشہ قدرتی وسائل کے استعمال میں اعتدال اور توازن کی تعلیم دی ہے۔

9. عزت نفس اور خودداری

اقبال نے اسلامی تہذیب میں عزت نفس اور خودداری کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ ان کے نزدیک، اسلام نے ہمیشہ فرد کو عزت نفس اور خودداری کی تعلیم دی ہے، جو کہ ایک مضبوط شخصیت کی بنیاد ہے۔

10. روحانی اور مادی ترقی کا امتزاج

اقبال نے زور دیا کہ اسلامی تہذیب میں روحانی اور مادی ترقی کا امتزاج ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک، اسلام نے ہمیشہ انسان کو روحانی بلندی اور مادی ترقی دونوں کی تعلیم دی ہے، جو کہ ایک متوازن زندگی کے لئے ضروری ہے۔

اقبال کے نزدیک، اسلامی تہذیب ایک مکمل اور جامع تہذیب ہے جو انسان کی مادی، روحانی، اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنی تہذیب کی قدر کریں اور اس کی بنیاد پر ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دیں۔

یورپی اقدار کا مجموعی جائزہ؟

یورپی اقدار کا مجموعی جائزہ کرتے ہوئے کئی اہم پہلو جات ہیں جو ان کی خوبیوں اور خامیوں کو سامنے لاتے ہیں:

مغربی تہذیب کی خوبیاں:۔

  1. علم و فن کی ترقی: یورپ کو علم و فن میں بہترین ترقی حاصل ہوئی ہے۔ وہ سائنس، فضائیات، ٹیکنالوجی، طبیعیات، ریاضیات، انجینئرنگ، اور دیگر شعبوں میں ممتاز کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔
  2. فلسفہ اور انسانیات: یورپ نے فلسفہ، ادب، انسانیات، اور فنون کے شعبے میں عظیم مراتب حاصل کیے ہیں، جن میں انکشافی عقائد، فلسفہ معاصر، اور دنیا بھر میں انتشار یافتہ ادب کی اہمیت شامل ہے۔
  3. جمہوریت اور حقوق انسان: یورپ نے جمہوریت، انسانی حقوق، اور آزادیوں کے حق کی ترویج میں اہم کام کیا ہے۔ وہ جنگوں، جدوجہد، اور تبادلۂ خیال کے باوجود جمہوریت کو مضبوطی دے رہے ہیں۔
  4. معیار زندگی: یورپ نے معیار زندگی میں بہتری پیدا کی ہے جس میں صحت، تعلیم، اور معاشرتی حقوق کے حسن نمایاں ہیں۔
  5. تکنولوجی اور صنعتی ترقی: یورپ نے صنعتی ترقی اور تکنولوجی میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے، جس نے ان کے علاقے کو ایک ماہر اور پیشہ ورانہ معاشرہ بنا دیا ہے۔

مغربی تہذیب کی خامیاں:۔

  1. مالیت اور اقتصادی تفرقہ: یورپ میں اقتصادی تفرقے کی مسئلہ اور مالیت کی زیادتی کی شدید مسائل پائے جاتے ہیں۔
  2. مہاجرین اور انسانی حقوق: یورپ میں مہاجرین کے حقوق کی مسئلے بھی اہم ہیں، جن میں ان کی امن، معیشت، اور معاشرتی امکانات کی پیداش مشکلات ہیں۔
  3. جمہوریت کی کمزوریاں: یورپ میں جمہوری نظاموں کی کمزوریاں بھی نظر آتی ہیں، جیسے سیاسی بحران، انتخاباتی معاملات، اور سماجی اختلافات۔
  4. ماحولیاتی تاثرات: یورپ کی صنعتی ترقی نے ماحول پر بھی بڑا اثر ڈالا ہے، جس میں آلودگی، آبادی کی بڑھتی ہوئی معیشت، اور زمینی استعمال کی مسائل شامل ہیں۔
  5. قومی اور عالمی جھگڑے: یورپ میں قومی اور عالمی سطح پر جھگڑے اور تناؤ کی مسائل پائی جاتی ہیں جیسے بریکسٹ، جیوپولیٹکس، اور دیگر بین الاقوامی معاملات۔

یہ یورپی اقدار کے مجموعی جائزہ کے چند اہم پہلو ہیں جو اس کی ترقیوں اور مسائل کو دونوں جانب سے پیش کرتے ہیں


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *