بسم الله الرحمن الرحیم

اللّهُمَّ اغفِر لِلمُومِنینَ وَ المُومِنَاتِ وَ المُسلِمینَ وَ المُسلِمَاتِ 

اَلاَحیَاءِ مِنهُم وَ الاَموَاتِ، تَابِع بَینَنَا وَ بَینَهُم بِالخَیراتِ
 

اِنَّکَ مُجیبُ الدَعَوَاتِ اِنَّکَ غافِرَ الذَنبِ وَ الخَطیئَاتِ
 

وَ اِنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ بِحُرمَةِ الفَاتِحةِ مَعَ الصَّلَوَاتِ

بسم الله الرحمٰن الرحیم

اللّٰہ کی زمین پر اللّٰہ کا نظام کون قائم کرسکتا ہے یہ کس کی زمہ داری ہے؟ اللّٰہ کریم کس سے پوچھے گا؟

اللّٰہ کی زمین پر اللّٰہ کا نظام قائم کرنے کا فریضہ تمام مومنین پر عائد ہوتا ہے۔ اسلام کے مطابق، یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اعمال اور کوششوں کے ذریعے انصاف، امن، اور اسلامی اصولوں کے مطابق نظام کو فروغ دیں۔

قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے مُومِنین و المُومِنَاتِ وَ المُسلِمین وَ المُسلِمَات کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ زمین پر بھلائی پھیلائیں اور برائی سے روکیں۔ مثال کے طور پر، سورہ آل عمران کی آیت 110 میں ارشاد ہوتا ہے:۔

“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”

یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے معاشرے میں اچھائی اور عدل کو فروغ دینا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمان اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی اصولوں کو نافذ کریں اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کریں جو اللہ کی رضا کے مطابق ہو۔

اس مقصد کے لیے مسلمانوں کو تعلیم، عدل، معاشرتی خدمات، اور دوسرے شعبوں میں کام کرنا ہوتا ہے تاکہ ایک منصفانہ اور پرامن معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

تمہید:۔

دنیا کی تاریخ میں مختلف تہذیبوں اور قوموں نے اپنے نظام اور قوانین کے ذریعے معاشرتی زندگی کو منظم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر نظام اپنے مخصوص فلسفے اور اقدار پر مبنی ہوتا ہے، اور ان کے ذریعے ایک مخصوص معاشرتی ڈھانچہ اور طرز زندگی کی تشکیل کی جاتی ہے۔ اسی طرح، اسلام ایک جامع نظام حیات پیش کرتا ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام کے نظام میں عدل، انصاف، رحم دلی، اور معاشرتی بہبود کی بنیادی اصول شامل ہیں۔

اسلامی نظام حیات کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے۔ قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسے قوانین اور اصول موجود ہیں جو معاشرتی انصاف اور بھلائی کو فروغ دیتے ہیں۔ اسلامی نظام صرف مذہبی عبادات تک محدود نہیں، بلکہ یہ معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی امور میں بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

اسلام کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اللہ کی ملکیت ہیں اور انسان کو اس کی زمین پر اللہ کا خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے تاکہ وہ اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارے اور معاشرتی نظام کو قائم کرے۔ یہ ذمہ داری فرد کی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک محیط ہے۔ مسلمان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ کے احکامات کی پیروی کرکے اور اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کے نظام کو زمین پر نافذ کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلامی نظام کا مقصد صرف مسلمانوں کے فائدے تک محدود نہیں، بلکہ یہ پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتا ہے۔ اس نظام کی بنیاد عدل، مساوات، اور رحم دلی پر ہے، اور یہ تمام انسانوں کو ایک منصفانہ اور پرامن معاشرے کی ضمانت دیتا ہے۔

اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے، مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کے احکامات کی پیروی کریں اور اس کے نظام کو زمین پر قائم کریں۔ اس فریضے کو انجام دینے کے لیے مسلمانوں کو تعلیم، شعور، اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں جو اللہ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں انصاف اور امن کی فراوانی ہو۔

دیباچہ:۔

اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قیام ایک اہم اور بنیادی مقصد ہے جو اسلام نے مسلمانوں کے سامنے رکھا ہے۔ یہ نظام نہ صرف مذہبی عبادات اور روحانی ترقی تک محدود ہے بلکہ یہ زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے، جس میں عدل، انصاف، معیشت، سیاست، اور سماجی بہبود شامل ہیں۔ اسلامی نظام ایک جامع نظام ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے معاشرتی نظام کی بنیاد رکھی ہے جو انصاف، مساوات، اور اخلاقیات پر مبنی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ نظام اللہ کے احکامات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے اور اس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جس میں امن، عدل، اور بھائی چارہ ہو۔

مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قول و فعل سے اسلامی اصولوں کا نفاذ کریں اور ایک ایسے معاشرتی ڈھانچے کی تعمیر کریں جو تمام انسانوں کے لیے فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تعلیم، شعور، اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک منصفانہ اور پرامن معاشرہ تشکیل پا سکے۔

یہ دیباچہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش کریں اور زمین پر اللہ کے نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ نہ صرف ان کا دینی فریضہ ہے بلکہ انسانی فلاح و بہبود کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسلامی نظام کی جڑیں عدل و انصاف میں ہیں اور اس کے قیام سے ایک ایسی دنیا تشکیل پائے گی جس میں ہر انسان کو اس کا حق ملے اور معاشرے میں حقیقی خوشحالی اور امن قائم ہو۔

اسلام کا تعرُفی نظام:۔

تعرف:

اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی اصطلاح سے مراد وہ اصول، قوانین، اور ضوابط ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی نظام کو چلانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ نظام مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو محیط کرتا ہے اور اس کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا، انصاف قائم کرنا، اور انسانی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔

اسلامی نظام کی بنیاد توحید (اللہ کی وحدانیت)، رسالت (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات)، اور آخرت پر ایمان پر ہے۔ یہ نظام زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور ان اصولوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو قرآن مجید اور سنت رسول میں مذکور ہیں۔

عناصر:۔

  1. عقیدہ:
    • اللہ کی وحدانیت پر ایمان
    • رسالت پر ایمان
    • آخرت پر یقین
  2. عبادات:
    • نماز، روزہ، زکوٰة، حج اور دیگر فرائض جو ایک مسلمان پر واجب ہیں۔
  3. اخلاقیات:
    • صداقت، دیانت، امانت، اور عدل جیسے اخلاقی اصول۔
  4. معاشرتی نظام:
    • عدل و انصاف کا قیام
    • معاشرتی خدمات اور فلاحی کام
    • حقوق العباد کی ادائیگی
  5. اقتصادی نظام:
    • سود سے پاک معیشت
    • زکوٰة اور خیرات کا نظام
    • دولت کی منصفانہ تقسیم
  6. سیاسی نظام:
    • شورائیت (مشاورت) پر مبنی حکمرانی
    • عدلیہ کی آزادی
    • حکمرانوں کی جوابدہی

مقاصد کلام:۔

  1. عدل و انصاف کا قیام:
    • ہر فرد کو اس کا حق دینا
    • مظلوم کی حمایت اور ظالم کا احتساب
  2. امن و امان کی بحالی:
    • معاشرے میں امن و سکون کی فضا قائم کرنا
    • جرائم کی روک تھام
  3. انسانی فلاح و بہبود:
    • تعلیم و تربیت کا فروغ
    • صحت کی سہولیات کی فراہمی
    • غربت کا خاتمہ

نتائج:۔

  • اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول
  • ایک منصفانہ اور پرامن معاشرے کا قیام
  • دنیا اور آخرت میں کامیابی

اسلامی نظام کا مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر فرد اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکے اور معاشرتی انصاف، اخوت، اور بھائی چارے کی فضا میں زندگی بسر کر سکے۔ یہ نظام دنیاوی فوائد کے ساتھ ساتھ آخرت میں کامیابی کا ضامن بھی ہے۔

اللّٰ پاک کی زمین پر اللّٰ کا نظام کا حاصل کلام:۔

حاصل کلام:۔

اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا مسلمانوں کا بنیادی فریضہ ہے جو ان کی دینی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط کرتا ہے۔ یہ نظام قرآن و سنت کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے اور اس کا مقصد دنیا میں عدل، انصاف، اور امن کا قیام ہے۔

اہم نکات:۔

  1. اللہ کی رضا کا حصول:
    • اسلامی نظام کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ یہ نظام دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے ایک جامع منصوبہ فراہم کرتا ہے۔
  2. عدل و انصاف:
    • اسلامی نظام عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ ہر فرد کو اس کا حق دینے اور معاشرتی ناہمواریوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
  3. اخلاقی اور سماجی بہبود:
    • اسلامی نظام اخلاقیات، دیانت، امانت، اور سماجی خدمات کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں مدد دیتا ہے جہاں ہر فرد کی عزت و وقار محفوظ ہو۔
  4. معاشرتی اور اقتصادی اصول:
    • اسلامی نظام سود سے پاک معیشت، زکوٰة، اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ غربت کے خاتمے اور معاشرتی بہبود کو یقینی بناتا ہے۔
  5. شورائیت اور حکمرانی:
    • اسلامی نظام میں حکمرانی شورائیت (مشاورت) پر مبنی ہے۔ یہ نظام حکمرانوں کی جوابدہی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔

نتیجہ:۔

اسلامی نظام کا نفاذ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے خیر و برکت اور فلاح کا باعث بنتا ہے۔ یہ نظام انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصلاحات اور بہتری کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو انصاف، امن، اور اخوت پر مبنی ہوتا ہے اور جہاں ہر فرد کو اس کا حق ملتا ہے۔

اختتامی بات:۔

اللّہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے لیے تعلیم، شعور، اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ ایک منصفانہ اور پرامن معاشرہ تشکیل پا سکے جو اللہ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں انسانی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔ اللہ ہمیں اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *