علماء اور مدرسہ بحیثیت ادارہ

علماے کرام ہوں یا مدارس ہوں کیا یہ اُن کا ذاتی اجارہ داری ہے یا اجتماعی فلاحی خدمت؟ مدارس میں علماء اکرام کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیے؟ جوکہ ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ علمی و دینی اور دنیاوی خدمات کے ساتھ ساتھ ملک و ملّت کی فلاح و بہبود اور ترقی اور سلامتی کے لئے بھی مدارس کا نمایاں کردار تاریخ انسانیت میں رہا ہے۔ مدارس اور علماء کا معاشرے میں قائدانہ کردار ملک و ملت کی جدوجہد آزادی سے ہو یا لے کر آج تک تاریخ کا ایک قابل فخر اور زریں حصہ ہے۔ مدارس اسلامیہ امت مسلمہ کی وہ متاع عزیز ہیں جن کے ساتھ اس کا ملّی تشخص اور دین و مذہب کی بقاء کا سلسلہ مربوط ہے، یہ دینی ادارے اسلامی تہذیب و ثقافت اوراخلاقی اقدار کا نمونہ ہیں، علماء دین جو ملت کے رہنما ہیں انھوں نے اوّل دن سے ہی اپنے فرض منصبی کو بخوبی پورا کیا اور دینی مراکز و مدارس کی بنیادیں ڈالنے، ان کی آبیاری کرنے اور پروان چڑھانے میں بڑی مشقتیں برداشت کیں، مختلف قسم کی مشکلات سے انہیں دوچار ہوناپڑا خود اپنے ہی لوگوں کی جانب سے موانع اورمسائل پیش آئے لیکن ہمارے اکابر و اسلاف نے ہمت نہیں ہاری بلکہ متواتر اپنی جدوجہد کو جاری رکھا یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے آسانیوں اور فلاح و کامیابی کے دروازے کھول دئے۔ مدرسہ علماء بحیثیت ادارہ ہوں یا کہ فرد واحد کی اجارہ داری ہو کیونکہ ایک منظم ادارہ ہی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتا ہے مدرسہ اور علماء اصل میں خود یہ ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ ذاتی اجارہ داری ہیں۔

            ایک مدرسے کو دودرے مدرسے کے ساتھ متحد کرنا وقت کی ضرورت:۔

ایک مدرسے کو دوسرے مدرسے کے ساتھ متحد کرنے میں رکاوٹیں کیا کیا ہیں؟ اور ان رکاوٹوں کو کم کرنا اور ہٹانا کیوں ضروری ہے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں؟

رکاوٹیں آپس میں اختلافات کی وجہ سے ہیں ورنہ اس طرح فرقے وجود میں آئے گے سب مل کر ایک ساتھ متفق ہو کر بیٹھیں اور اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر دین اسلام کی بالادستی اور سر بلندی کے لیے متحد ہو جائیں تاکہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہو ان چیزوں کے ذریعے اللہ کا دین اللہ کے بندوں تک پہنچا دیا جائے اور معاشرے کی اصلاح اور خدمت کی جائے اتحاد کے لیے کتاب وسنت اقوال سلف کے علاوہ دنیاوی دلیل بھی ضروری ہے دنیاوی علوم کے مطابق علم اور تجربے کے مطابق مطلب ( ہنر) ہو عہدے کی صلاحیت رکھتا ہوں اور اس کو پر فورم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اتحاد نامہ بنا کر ضبط تحریر کیا جائے اور مکمل 4 چار گواہوں کی موجودگی میں (نام ۔سائن،فون نمبر) یہ سب کام ہو۔

نام نہاد پیشہ وروں کی وجہ سے مدارس اور علماوں کی بدنامی ہورہی ہے اور عام لوگوں پر بھی اس کے خراب اثرات پر رہے ہیں:۔

             بدنامی کی وجہ سے دین کے خدمت کرنے والے حق پرست علماء بھی معاشرے میں بدنام ہورہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خاص اسلامی تہواروں کے مہینے میں واقعی اور صحیح مدارس کے نمائندے جب کسی صاحب مال و دولت کے یہاں پہنچتے ہیں تو وہ بھی اکثر اوقات شک و شعبے میں آجاتے ہیں اور امیر اور مالدار طبقہ علماوں کو لاعن طعن کرنے لگتے ہیں اور غیرذمہ دارانہ طریقہ اختیار کیا جاتاہے کہ اصل مدارس والے محروم رہ جاتے ہیں اور غیر مستحق لوگ اپنی چرب زبانی اور چالاکی کے باعث اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں لہٰذا متمول حضرات کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زکوٰة اہل حق تک پہنچانے میں تحقیق و تفتیش سے کام لیں خواہ اس کے لئے انہیں باقاعدہ سفر کرنا پڑے یا اپنا کوئی نمائندہ بھیجیں۔ اس سلسلہ میں کسی مدرسے والے کی روایت پر قطعاًبھروسہ نہ کریں چونکہ مدارس سے وابستہ حضرات میں بعض افراد کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ ان سے اگر کسی ادارہ کے بارے میں کوئی پوچھ لے کہ فلاں مدرسہ کیسا ہے؟ کیا آپ فلاں مدرسہ کو جانتے ہیں؟ تو ہم لوگوں کا مزاج کچھ ایسا بن چکا ہے کہ ہمارے جوابات میں عموماً برائی کا پہلو غالب ہوتا ہے ایک مدرسہ والا دوسرے مدرسہ کی تحقیر و تنقیص میں اپنی عزت افزائی تصور کرتا ہے، حالانکہ اس طریق میں دونوں ہی کی حقارت و تذلیل لازم آتی ہے۔

            حضرت مرشد الامت مفتی مہربان علی شاہ بڑوتی کے بقول کہ ”آج ہر مدرسہ والا اپنے کام پر خوش ہے دوسرے مدرسہ کے کام کو سراہنے اور اس کے متعلق حوصلہ افزاء کلمہ خیر کہنے کا مزاج ختم ہوتا جارہا ہے۔ کلُ حِزْبٍ بما لدیہم فرحُون کا ہر طرف مشاہدہ ہوتاہے اگر کسی جگہ دینی کام ہورہا ہے تو اس سے مسرت ہونا ایمانی تقاضا ہے۔ اگر کسی دینی کام میں آپ تعاون نہیں کرسکتے تو کم از کم برائی بھی تو نہ کریں۔

            حضرت محی السنہ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی فرمایاکرتے تھے کہ ”دین ایک جسم کے مانند ہے، جسم کے اعضاء الگ الگ ہوتے ہیں اور علیحدہ علیحدہ ان کے کام ہوتے ہیں۔ کان کی ذمہ داری سننا، آنکھوں کا کام دیکھنا، ناک کا استعمال سونگھنے کیلئے ہوتا ہے، ایک عضو دوسرے عضو کا کام انجام نہیں دے سکتا آنکھ کا کام اگر ناک سے لینا چاہیں تو نہیں لے سکتے ہر عضو کی مستقل اپنی ضرورت ہے اور وہ جسم کی خدمت انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دین کے مختلف شعبے اور میدان ہیں۔ کوئی تبلیغی لائن سے دین کی خدمت کررہا ہے، کوئی دینی مدرسہ کی شکل میں دین کی خدمت میں مصروف ہے اورکوئی خانقاہی انداز سے مصروف عمل ہے مقصد سب کا ایک ہے وہ دین کی خدمت کرنا۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *