کسی ملک کا نظام چلانے اور اس میں میں امن و سکون قائم کرنے اور رکھنے کے لیے لیے دو باتیں باتیں ضروری ہے

حکمرانوں کا عادل و منصف اور عوام کے دکھ اور درد کو سمجھنے والا ہونا

عوام کو اپنے حکمران کے ساتھ تعاون کرنا

ان دونوں باتوں کی بنیاد خیر خواہی ہے یعنی دونوں ہی ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں_جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے_ الدین النصیحہ “ترجمہ دین خیر خواہی کا نام ہے”۔

ایک دوسرے کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ حکمران قومی آمدنی کو اپنی ذات پر خرچ نہ کرے اور نہ ہی اس کو اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے اور اپنی حفاظت پر قومی وسائل کو بے دردی سے صرف نہ کریں_بلکہ صحیح معنوں میں اسے عوام کی فلاح و بہبود پر،ان کی تعلیم و تربیت پر، ان کو عدل و انصاف مہیا کرنے پر،امن و سکون قائم کرنے پر،ان کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے پر اور اسی طرح انکو انکی ضرورت اور ملکی وسائل کے مطابق ہر طرح کی آسائش اور سہولتیں مہیا کرنے پر صرف کریں_۔یہی امانت و دیانت کا تقاضا بھی ہے اور رعایا کے حقوق کی ادائیگی کا طریقہ بھی_۔ایسے ہی عادل حکمرانوں کو قیامت کے دن میدان حشر کی ہولناکیوں کے وقت اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہو گا_۔

رعایا پر حکمرانوں کا حق یا ان کی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ حکمران اگر راہ حق سے ہٹنے لگیں تو انھیں راہ راست کی طرف بلائیں،اور اگر ان کے حکم میں اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی نہ ہو تو، اسے بجا لائیں_اسی صورت میں سلطنت کا کام اور انتظام درست رہ سکتا ہے کیونکہ اگر حکمرانوں کی مخالفت اور نا فرمانی کی جائے تو بد نظمی پھیل جائے گی اور سب کام بگڑ جائیں گے،اسی لیئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے_اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم) ترجمہ:اے ایمان والو! اللّٰہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان حکمرانوں کی جو تم سے ہوں_” (سورۃ النساء آیت نمبر 59)۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمان کے لئے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے_ان چیزوں میں بھی جنھیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنھیں وہ پسند نا کرے،جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے،اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر ان کی سمع و اطاعت ضروری نہیں_”(صحیح بخاری حدیث نمبر 7144 وصحیح مسلم حدیث نمبر 1839

ایک دوسری حدیث میں سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: “اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! یہ فرمائیے!اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں، جو ہم سے تو ہمارا حق مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو اس بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس شخص سے منہ پھیر لیا_اس شخص نے دوسری بار وہی سوال کیا، آپ نے پھر منہ پھیر لیا، پھر پوچھا تو اشعث بن قیس نے سلمہ بن یزید جعفی کو کھینچا پھر کہا:”ان کی بات سنو اور اطاعت کرو،اس لیے ان کی ذمے داری کا بوجھ ان پر اور تمہاری ذمہ داری کا بوجھ تم پر_”(صحیح مسلم حدیث نمبر 1846)

گویا حکمرانوں کا رعیت پر حق ہے کہ رعیت اہم امور میں حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرے،کیونکہ جو امور حکمرانوں کو سپرد کئے گئے ہیں ان کے نفاذ میں رعیت ان کی مدد گار ہوتی ہے_نیز یہ کہ امیر کے کام اور معاشرے کے سامنے اس کی مسئولیت ہر ایک کو معلوم ہونی چاہیے، کیونکہ اگر مسئولیت والے کاموں میں رعایا حکمرانوں کے ساتھ تعاون ہی نہ کرے تو وہ مطلوبہ صورت میں کیسے سر انجام دے سکتے ہیں؟


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *