حضرت محمد ﷺ نے فرمایا :۔
بد گمانی سے بچو کیوں کہ بد گمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے : ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ۔ اور بلوغ المرام نمبر 1284
خوش رہنا چاہتے ہو تو حسن ظن سے کام لو ۔کسی کے لیے بد گمان مت ہو ۔
مثبت سوچ اور ثابت قدمی
بدگمانی مثبت سوچ:- بدگمانی ہزار وسوسوں کو جنم دیتی ہے جسکا ڈئریکٹ تعلق دلی سکون سے جُڑا ہوا ہے۔
قلبی سکون:۔ برے خیلات اور منفی سوچ اپنی ہی ذات میں تخریب کاری کا سبب بنتا ہے بلکہ خوشیوں کے لمحے بھی گھٹا دیتا ہے۔ بد گمانی صرف اپنی سوچ کی پیداوار ہے۔ اسلئے بد گمانی کرنا اور نیگیٹیو سوچ سے اپنے ہی دل میں وسوسہ پیدا ہوتاہے۔ لوگوں کے بارے میں اپنی طرف سے کوئی رائے کام کرنا بدگمانی ہے۔
سنی سنائی باتوں پر یقین بدگمانی
ہماری رائے سنی سنائی باتوں پر:- سنی سنائی باتوں پر بدگمان ہوجانے سے خود کا سکون برباد ہوجاتا ہے۔ بے بنیاد خیالات سے انسانی رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔ بدگمانی سے نمٹنے کیلئے ہمیشہ مثبت سوچ رکھنا چاہیے۔ بدگمانی سے نمٹنے کا بہترین طریقہ سیدھی سادی بات کریں۔ بدگمانی آپ کو گنہگار بھی بنا سکتی ہے۔ اسلئے اپنی زندگی کے معالات سچائی اور ٹھوس حقائق پر استوار کریں اور بدگمانی رشتوں کی کنچی ہے۔
سورہ النور 13.24
جب تم نے یہ ( عائیشہؓ پر تہمت والی ) بات سنی تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیوں نہ کیا ۔
ظن کو سب سے بڑا جھوٹ اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان اپنے دل ہی دل میں گمان و ظن کی پروریش کرتا رہتا ہے ۔ پھر اسے زبان پر لاتا ہے ۔
جھوٹ کی بنیاد کوئی نہیں ہوتی ۔ جب کہ برے گمان والا اپنے دل میں ایک بنیاد قائم کرتا ہے ۔ اور لوگوں پر اس کا جھوٹا ہونا مخفی رہ جاتا ہے ۔
چنانچہ عام جھوٹوں کی طرح اس کا پتہ نہیں چل سکتا ۔ لہزٰا یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔
ظن اور گمان کا دوسرا نام تہمت ہے۔
اور تہمت بہت بڑا کبیرہگناہ ہے ۔ اس سے بچنیں اور پرہیز کریں ۔ کیوں کہ اگر معاشرے میں بد گمانی پروریش پائی گی تو معاشرے کا امن ختم ہو جائے گا ۔
کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی گی ۔اور معاشرے کے افراد کے درمیان اعتماد کی فضاں قائم نہیں رہ پائے گی ۔ اور ہر شخص ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے گا ۔
اچھے اور صالح معاشرے میں بد گمانی کے جراثیم کو پھلنے پھولنے نہیں دینا چاہیے ۔
درد دل رکھنے والے علماوں پر یہ زمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو شیطانی اعمال سے بچایں ۔
بدگمانی ہزار وسوسوں کو جنم دیتی ہے
ایک بدگمانی ہزار وسوسوں کو جنم دیتی ہے:- بدگمانی ہزار دشمنی کو جنم دیتا ہے۔ انسان سے گفت و شنید کرکے بدگمانی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔۔ بدگمانی کا بیج تناور درخت نہ بن جائے ۔
انسان کی زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آتے ہیں جب برسوں کے تعلقات معمولی غلط فہمی کی بناء پر ختم ہوجاتے ہیں
پریشانی غلط فہمی بدگمانی
ہماری پریشانیاں ہماری غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔ پریشانی حالات کی وجہ سے نہیں خیالات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ہم نے توقوات غلط پیمانے بنا لِے ہیں۔ وہ انسان کبھی کوئی رشتہ قائم نہیں رکھ سکتا۔
خود ہی کرتے سوال خود ہی دیتے ہیں جواب:- جو غلط فہمی میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب بھی خود ہی بنا لیتا ہے۔
انسان کی زندگی میں ایسے بہت سے لمحات آتے ہیں۔ برسوں کے تعلوقات لمحوں میں دفن کردیتے ہیں۔ معمولی سی غلط فہمی کی بنیاد پر ختم کردیتے ہیں۔ بدگمانی ظن ہے اور ظن ذہر ہے۔
بدظن بدگمانی:- غلط فہمی نے دل کا آئینہ دھندلا دیا ہے۔ ایک غلط فہمی سے برسوں کی شناسائی گئی۔
تم جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔
جیسا کروگے ویسا بھرو گے:- اسلام اپنے ماننے والوں کو معاشرے کا بہترین فرد بنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ سچائی دیانت داری، ایمانداری، خیرخواہی، ہمدردی، قاسار و ربانی، بُرد باری، حکمتِ عملی انسان شناسی بھی سکھاتا ہے۔
مومن مسلمان کی سوچ:- کسی کے ساتھ بُرا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا کہ جو میں آج اس کے ساتھ کرنے لگا ہوں وہی کل میرے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
سوچ سوچ کر پریشان ہوتے ہیں۔
ہم ناحق سوچ سوچتے ہیں:-بہت ساری چیزوں کو محض اپنی سوچ کے مطابق سوچتے اور دیکھتے ہیں اور پریشان ہوتے رہتے ہیں۔
0 Comments