بولتی_چٹھیاں : (ڈپریشن سے متعلق “تحریر جو کسی کی جان بچا لے” ) (ایک امریکی ماہر میڈیسن کے قلم سے )
A_Public_Service_Message:
“امی ابو ! مجھے معاف کردیجیے گا – میں آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا – خدا حافظ ” —- ملازمت نہ ملنے پر نوجوان نے خودکشی کرلی !
“بھائی ! میں امتحان پاس نہیں کر سکا. اب اس ندامت کے ساتھ میں زندہ نہیں رہنا چاہتا – چلتا ہوں ” —– امتحان میں پاس نہ ہو سکنے پر طالب علم نے زہر کھا لیا !
” امی مجھے معاف کردینا لیکن میں یہ شادی نہیں کر سکتی – آخرت میں ملاقات ہوگی ” –رشتے کے تنازع پر دوشیزہ نے پھندا گلے میں ڈال لیا –
ایسی خبریں اور چٹھیاں روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں لیکن ہم کسی امتحان میں ناکامی، کسی محبت میں دل ٹوٹنے اور کسی بیروزگاری سے تنگی کا لبادہ اوڑھا کر ان چٹھیوں کو بھی ان مایوسی زدہ میتوں کے ساتھ دفنا دیتے ہیں اور اس کے بعد ہمارے مورد الزام ہمیشہ زبر دستی کرنے والے والدین پیچیدگیوں سے بھرا امتحانی نظام اور کرپشن و سفارش سے بھرا یہ معاشرہ ٹھہرتا ہے – یوں ہم کبھی اس بیماری کا ذکر نہیں کر پاتے جس کو “ڈپریشن ” کہا جاتا ہے – جی ڈپریشن ! یہ ووہی بیماری ہے جس کی علامات سنتے ہی ہماری زبان پر “ڈرامہ اور اداکاری”کےالفاظ جاری ہوجاتے ہیں – جو تشخیص سے پہلے ” نظر لگنا ” اور تشخیص ہو بھی جایے تو ” پاگل پن ” قرار پاتی ہے – جس کے نتیجے میں ہونے والے شخصی زوال کو “کوئی صدمہ ” اور خود کشی کو ” کمزور اعصاب” کی نشانی مان کر باقی بچوں کو فلموں ڈراموں سے پرہیز کرنے کی تلقین کر کہ کام مکا دیا جاتا ہے – قلم کی جسارت کے اس سلسلے “تحریرجو کسی کی جان بچا لے ” کا آج موضوع ہے “ڈپریشن” –
ہر گھر میں ڈپریشن کی مختلف تعریف اور پہچان ہے – بیٹے کو ہوجاۓ تو ایموشنل بلیک میلنگ سے ماں باپ کو ڈرانا اور بہو کو ہوجاۓ تو “ماں کا سکھایا ہوا ڈرامہ” سمجھا جاتا ہے – ماں باپ کو ہوجاۓ تو بڑھاپے کا “سٹھیانہ” اور ملازم کو ہوجاے تو کام سے بچنے کا “بہانہ” قرار پاتا ہے – ہمارے معاشرے صحت اور طب کی معلومات کے بارے میں شدید گمان اور کم علمی کا شکار ہیں – جہاں آج بھی شوگر کا علاج مقیت شہد اور ہیپاٹائٹس کا علاج کبوتر سے کیا جاتا ہے وہاں ڈپریشن جیسی پیچیدہ بیماری کو پکڑ پانا اور کنٹرول کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا عوام کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ شوگر اور بلڈ پریشر کی طرح یہ بھی ایک بیماری ہوتی ہے – جیسے شوگر میں انسان کے جسم میں انسولین بننا بند ہوجاتی ہے ویسے ہی ڈپریشن میں بھی انسان کے دماغ میں بہت سے کیمیکل جن کو ” نیورو ٹرانسمٹر ” کہتے ہیں ان کا توازن بگڑجاتا ہے – جیسے شوگر کی علامات ہوتی ہیں جیسے کی ” بہت پیاس لگنا ؛ وزن کم ہونے لگنا ‘ بہت پیشاب آنا ” ویسے ہی ڈپریشن کی بھی نو علامات ہوتی ہیں جو کہ یہ ہیں :
١- کسی کام میں خوشی محسو س نہ ہونا – ٢- مایوس محسوس کرنا ٣- نیند کا نہ آنا یا بہت زیاد آنا ٤- بھوک نہ لگنا – ٥- بولتے ہویے نظر نہ ملا پانا یا بہت تیز تیز بولنا جس سے بی چینی ظاہر ہو – ٦- ہر وقت جسم کا تھکا تھکا محسوس ہونا -٧- اپنی ذات کے بارے میں اس وہم کا شکار رہنا کہ میں ایک ناکام انسان ہوں اور میری وجہ سے میرے خاندان کو بدنامی دیکھنا پڑ رہی ہے – ٨ کسی بھی کام میں دل نہ لگنا – ٩ – خود کشی کے خیال آنا –
ان میں سے کل چار علامات ہفتے میں زیادہ تر دن موجود ہوں اور انسان کی زندگی اور روز مرہ کاموں میں فرق ڈالیں تو آپ کو کوئی نظر ‘ کوئی جادو ‘ کوئی وہم یا کوئی ڈرامہ نہیں لاحق ہوا بلکہ آپ اس بیماری کا شکار ہوگئےہیں جو” ڈپریشن” کہلاتی ہے اور قابل علاج ہے جس کیلئے آپ کو کسی بابے کے تعویز، کسی جوگی کے جھاڑو دم اور کسی آنٹی کی “میں بھی کبھی بہو ” والی نصیحت کی نہی بلکہ ایک ڈاکٹر ایک ماہر نفسیات کی ضرورت ہے بالکل ویسے ہی جیسے شوگر کیلئے آپ کو شوگر کے ماہر کی ضرورت پڑتی ہے – جیسے شوگر انسولین سے کونٹرول رہتی ہے ویسے ہی ڈپریشن “کونسلنگ اور میڈیسن ” سے کنٹرول رہتا ہے – ڈپریشن کی اکثر دواییں کم از کم چھے مہینوں بعد اپنا اثر دکھانا شروع کرتی ہیں اس لئے فورا نتیجہ نہ ملنے پر ڈاکٹر کو “ساہوکار”اور دوائی کو “کاروبار” قرار دینے سے پہلے یہ کالم پڑھلیں- جیسے شوگر کنٹرول نہ ہو تو گردے فیل ہوسکتے ہیں اور پاؤں بھی کاٹنا پڑ سکتا ہے اسی طرح ڈپریشن کا ٹھیک علاج نہ ہو تو انسان مایوسی کا اس حد تک شکار ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو کسی پھندے پر لٹکا کر کوئی تیزاب پی کر کسی چھت سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا دھاگہ کاٹ سکتا ہے – ایک اعداد و شمار کے مطابق ہر سال پاکستان میں تین سو سے زیادہ لوگ ڈپریشن کی وجہ سے خود کا خاتمہ کر لیتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ شوگر میں تو گھرکے ملازم تک کو علم ہوتا ہے کہ “صاحب جی کو شوگر آتی تھی اس لئے پاؤں کٹ گیا” لیکن اس بیماری میں کسی الله والے کو نہیں پتا چلتا کہ یہ جو خود کشی ہوئی ہے یہ بیوی سے جھگڑے ‘ امتحان میں ناکامی ؛ باس سے تو تو میں میں اور محبت میں نامرادی کی وجہ سے نہیں بلکہ کبھی تشخیص نہ ہو سکنے والے ڈپریشن کی وجہ سے ہوئی ہے –
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ٣٥ فیصد لوگوں میں ڈپریشن پایا گیا ہے جن میں اکثریت خواتین اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے – خاندانی رویے ‘ معاشرتی پابندیاں’ کم تعلیم ‘ معاشی وسائل کی کمی اور آس پاس بڑھتی انتہا پسندی وہ عوامل ہیں جن سے اس خود بخود ہونے والی بیماری میں بڑھاوا آتا ہے اور پھر بس تابوت میں آخری کیل کی طرح کسی ایک ہٹ کی ضرورت پڑتی ہے جو اس ڈپریشن کے مریض کو موت تک لیجاتی ہے اور یہ ہٹ کسی امتحان میں ناکامی؛ طلاق ؛ ملازمت سے برخاستگی اور محبوب کی بیوفائی جیسی کوئی بھی بات ہوسکتی ہے جو ایک عام تندرست انسان کیلئے بہت معمولی اور روز مراہ کی بات جیسی ہی ہوتی ہے – خاص طور پر عورتوں میں بچے کی پیدائش کے فورا بعد ڈپریشن کا ایک دور آسکتا ہے جس کو “پوسٹ پارٹم ڈپریشن ” کہتے ہیں جس میں وہ بات بات پر رونے لگتی آہی اور چڑچڑی ہوکر کبھی کبھی بچے کی بھی ٹھیک سے دیکھ بھال نہیں کر پاتی- اس کی وجہ پیدائش کے فورا بعد جسم میں پیدا ہونے والے ہارمونز کی تبدیلی ہے جو چار پانچ ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتی ہے لیکن اس دوران “اکھڑ؛ بد مزاج اور ڈرامہ ” کہنے کی بجاۓ اس کو علاج اورکونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے جو مجھے اکثر پڑھے لکھے اور اونچے گھرانوں میں بھی نظر نہیں آتی –
اس بیماری کو بیماری نہ سمجھنے کے رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شوگر اورٹی بی کی طرح اس بیماری کا کوئی بلڈ ٹیسٹ کوئی ایکسرے نہیں ہوتا بلکہ بس علامات کی بنیاد پر ایک ماہر کے انٹرویو کی ضرورت ہوتی ہے – ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے ہر دس ہزار میں سے بس ایک مریض اس کی تشخیص کیلئے کسی ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جب کے باقی نو ہزار نو سو ننانوے لوگ یا تو اس کو ڈرامہ اور ایک بہانہ قرار دیے جا نے کے ڈر سے کبھی اظہار ہی نہیں کر پاتے یا کر بھی دیں تو بس کسی بابے ؛ جوگی ؛ مولوی صاحب یا خاندان کی سب سے تجربہ کار خاتون سے نصیحت ڈھونڈتے نظر آتے ہیں – وہ الگ بات ہے کہ جب اس بیماری کی وجہ سے وہ خود کشی کر کہ موت کے منہ میں چلے جائیں تو ووہی مولوی صاحب اور آنٹی اس موت پر حرام ہونے کا فتوی دے کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہویے اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتی ہیں مرنے والے کی چھوڑی ہوئی وہ کاغذ کی چٹھیاں جو لواحقین کو رہتی عمر تک اس کی ذہنی بیماری کو اداکاری ‘ نظر اور بہانہ سمجھنے کی غلطی پر کوستی رہتی ہیں –
میں نے اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ اس معاملے میں بس پانچ وقت نماز اور دعا کی نصیحت کرکہ بات ختم کردی جاتی ہے اور اس بیماری کو محض نا امیدی قرار دیکر اس کو مسلمانیت سے جوڑ دیا جاتا ہے کہ ” مسلمان کبھی نا امید اور ڈپریس نہیں ہوسکتا ” – جیسے ایک مسلمان جسم میں انسولین کی کمی ہونے سے شوگر اور کولسٹرول بڑھنے سے ہارٹ اٹیک کا شکار ہوسکتا ہے اسی طرح ایک مسلمان جسم میں کیمیکل کے توازن بگڑنے سے اس مرض ڈپریشن کا شکار بھی ہوسکتا ہے – ہارٹ اٹیک ہونے کی صورت میں یہ معاشرہ ہسپتال کیوں بھاگتا ہے سٹنٹ اور ای سی جی کیلئے ؟ بس پانچ وقت نماز اور قران کی تلاوت کا درس دے کر بات ختم کیوں نہیں کر دیتا جیسا ڈپریشن میں کرتا ہے ؟ ڈپریشن کو مایوسی قرار دیکر بس ذکر و دعا کا درس دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ “مایوسی اور ڈپریشن میں فرق ہے – ڈپریشن ایک پوری بیماری ہے جس کی نو علامتوں میں سے بس ایک علامت مایوسی ہے – جیسے شوگر میں دعا کے ساتھ ساتھ انسولین کی بھی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی اس بیماری میں دعا اور ذکر کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے –
اس تحریر کی وساطت سے التماس یہ ہے کہ ہر ذہنی بیماری بشمول ڈپریشن پاگل پن نہیں ہوتی بلکہ ویسی ہی ایک بیماری ہوتی ہے جیسے شوگر ‘ دمہ اور بلڈ پریشر بیماریاں ہیں- یہ بالکل قابل علاج ہوتی ہے اور اس علاج سے انسان کی ملازمت ؛ تعلقات ؛ جذبات اور زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں – اس کیلئے ملک میں بہت سے فری کلینیک بھی قائم ہیں – —– اس تحریر کو شئیرکیجیے – اپنوں میں بیگانوں میں – شادیوں میں جنازوں میں – مجلسوں میں میلادوں میں – خطبوں میں تبلیغوں میں- بیٹیوں میں بہووں میں
کہ اس سے اگر کسی ایک مریض کی وقت سے پہلے تشخیص ہوگیی اور اس سے اس کو خودکشی سے روک کر اس کی جان بچا لی گیی تو یہ ایک انسان نہیں پوری انسانیت پر رحم ہوگا کیوں کہ قران فرماتا ہے :
“جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی” (المائدہ)
0 Comments