شوال کے چھ روزے
رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
من صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال، كان كصيام الدهر۔
في الحديث ثواب من صام رمضان وصام بعده ستةَ أيامٍ من شوال، فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم عن فضل ذلك، وهو أنه يكون بصومه هذا كمن صام السنة كلها، لأن الحسنة بعشر أمثالها، فرمضان بعشرة أشهر، والستة بشهرين، كما جاء في حديث ثوبان عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «صيام شهر رمضان بعشرة أشهر، وصيام ستة أيام من شوال بشهرين، فذلك صيام سنة»، حديث صحيح، رواه ابن ماجه والنسائي وغيرهما، وصيام شوال يكون بعد القضاء لمن فاته شيء من رمضان، لقوله: “ثم أتبعه”، ولقوله: “صام رمضان”، ولا يشترط التتابع في صيام الست، ولا يصح قضاؤها بعد شوال.
شوال کے روزوں کے فوائد؟
مِن فوائد الحديث
نمبر 1- استحباب صيام الست من شوال۔
نمبر 2- فضل صيام الست من شوال۔
نمبر 3-وجوب إتمام رمضان لمن عليه قضاء، ثم صيام الست من شوال بعده، لقوله: أتبعه۔
نمبر 4- أجر صيام الست من شوال حاصل لصائمها سواء كانت مجموعة أو متفرقة۔
جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورا سال مسلسل روزے رکھنے کی طرح ہے۔
حوالہ صحیح مسلم حدیث نمبر 2758
شوال کے چھ روزے رکھنے کی شرعی حیثیت پر تفصیلی مضمون؟
یقیناً! یہاں شوال کے چھ روزوں کی شرعی حیثیت پر ایک جامع اور سادہ زبان میں یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے:۔
شوال کے چھ روزے سنتِ مؤکدہ کے درجہ میں ہیں۔ اس کا وقت شوال کا مہینہ ہے۔ عید کے اگلے دن سے شروع کیا جا سکتا ہے۔ ان روزوں کا ثواب پورے سال کے روزوں کے برابر ہے۔
شوال کے چھ روزے رکھنے کی شرعی حیثیت؟
اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو روحانی، جسمانی اور سماجی بھلائی کی طرف بلاتا ہے۔ اس دین میں عبادات کے ساتھ ساتھ نفلی اعمال کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ انہی نفلی عبادات میں سے ایک عمل ماہِ شوال کے چھ روزے رکھنا ہے۔ ان روزوں کی بڑی فضیلت احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے اور یہ روزے سنت ہیں۔
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت؟
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
“جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے”۔
(صحیح مسلم: 1164)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنے والے کو پورے سال روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے، کیونکہ اللّہ تعالیٰ کے ہاں نیکیوں کا بدلہ کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، اور رمضان کے 30 دن اور شوال کے 6 دن کو اگر 10 گنا سے ضرب دی جائے تو وہ 360 دن بن جاتے ہیں، جو پورے سال کے برابر ہے۔
ان روزوں کی شرعی حیثیت؟
شوال کے چھ روزے سنتِ مؤکدہ کے درجہ میں ہیں۔ یہ فرض یا واجب نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہیں اور ان پر عمل کرنے والے کو عظیم ثواب ملتا ہے، جبکہ نہ رکھنے والے پر کوئی گناہ نہیں، لیکن اس فضیلت سے محرومی ضرور ہے۔
ان روزوں کا وقت؟
یہ روزے شوال کے مہینے میں کسی بھی دن رکھے جا سکتے ہیں، لگاتار یا وقفے وقفے سے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ عید الفطر کے دن (یکم شوال) روزہ نہ رکھا جائے کیونکہ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔
روزے رکھنے کی ترتیب
ان چھ روزوں کو لگاتار رکھنا مستحب ہے، یعنی اگر عید کے فوراً بعد رکھے جائیں تو زیادہ بہتر ہے، لیکن اگر کوئی وقفے وقفے سے رکھے تب بھی شرعی طور پر جائز ہے اور ثواب میں کوئی کمی نہیں۔
شوال کے چھ روزے کاخلاصہ کلام؟
ماہِ شوال کے چھ روزے:۔
- شوال کے چھ روزے سنتِ مؤکدہ کے درجہ میں ہیں یہ روزے فرض نہیں، بلکہ سنت ہیں۔
- ان کا وقت شوال کا مہینہ ہے، عید کے اگلے دن سے شروع کیا جا سکتا ہے۔
- یہ روزے لگاتار یا مختلف دنوں میں رکھے جا سکتے ہیں۔
- ان روزوں کا ثواب پورے سال کے روزوں کے برابر ہے۔
آخری بات
یہ روزے ہمیں رمضان کے بعد بھی نیکیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ رمضان میں جو روحانیت حاصل ہوئی، شوال کے روزے اس کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس عظیم سنت کو اپنائیں اور اس کے فضائل سے فائدہ اٹھائیں۔
اگر آپ چاہیں تو میں اس مضمون کو پی ڈی ایف یا Word میں بھی تیار کر سکتا ہوں، یا اس میں مزید تفصیلات شامل کر سکتا ہوں جیسے کہ فقہی مذاہب کے اقوال یا سوال و جواب کی شکل میں۔
مزید تفصیلات ملاحظہ فرمائیے؟
ضرور، آئیے اب ہم “شوال کے چھ روزے رکھنے کی شرعی حیثیت” کے موضوع کو مزید تفصیل، دلائل اور فقہی آراء کے ساتھ بیان کرتے ہیں، تاکہ مضمون علمی، جامع اور عام فہم ہو جائے:
شوال کے چھ روزے رکھنے کی شرعی حیثیت (تفصیلی مضمون) اور مقدمہ؟
اسلام دینِ فطرت ہے، جو بندوں کی تربیت کا پورا نظام فراہم کرتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں، جن کے ذریعے تقویٰ، صبر، شکر، نظم و ضبط اور روحانی ترقی حاصل کی جاتی ہے۔ رمضان کے بعد ماہِ شوال کے چھ روزے اس تربیت کو جاری رکھنے اور اللّہ پاک کے مزید قرب کے لیے ایک نفلی ذریعہ ہیں۔
نمبر 1- شوال کے چھ روزوں کی بنیاد۔
احادیثِ مبارکہ
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:۔
“مَن صام رمضانَ، ثم أَتبعَهُ سِتّاً من شوّالٍ، كان كصيام الدهرِ”
(صحیح مسلم: 1164)حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتِ بْنِ الْحَارِثِ الْخَزْرَجِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ»۔(صحیح مسلم: 1164[
ترجمہ: “جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، وہ گویا پورے سال کے روزے رکھنے والا ہو گیا۔”۔
یہ حدیث شوال کے روزوں کی فضیلت کو واضح کرتی ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دیتی ہے۔
نمبر 2-اِن روزوں کی شرعی حیثیت۔
علمائے کرام اور فقہاء کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ شوال کے چھ روزے:۔
- فرض یا واجب نہیں ہیں۔
- سنت یا مستحب ہیں۔
- ان پر عمل کرنے والا ثواب کا مستحق ہوگا، اور نہ رکھنے پر گناہ نہیں، لیکن نیکی سے محرومی ہوگی۔
فقہی مذاہب کی آراء:۔
- حنفیہ: شوال کے روزے مستحب ہیں، نفل کے درجے میں آتے ہیں۔
- مالکیہ: امام مالک رحمہ اللہ سے مختلف روایات مروی ہیں۔ بعض کے مطابق وہ ان روزوں کو مکروہ سمجھتے تھے، اگر لوگ ان کو لازم اور سنت مؤکدہ سمجھنے لگیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ روزے منع ہیں، بلکہ صرف بدعت سے بچانے کی نیت تھی۔
- شافعیہ و حنابلہ: ان مذاہب میں شوال کے چھ روزے مستحب اور باعثِ ثواب سمجھے جاتے ہیں، اور ان پر عمل کو فضیلت حاصل ہے۔
نمبر 3-یہ روزہ رکھنے کا طریقہ اور وقت؟
- یہ روزے شوال کے مہینے میں رکھے جاتے ہیں، اور کسی بھی دن رکھے جا سکتے ہیں۔
- عید کے دن (یکم شوال) روزہ رکھنا حرام ہے، لہٰذا 2 شوال سے آغاز کیا جا سکتا ہے۔
- روزے لگاتار رکھنا افضل ہے، لیکن وقفے سے رکھنا بھی جائز ہے۔
نمبر 4- شوال کے روزے اور رمضان کے قضاء روزے؟
بعض فقہاء کے نزدیک اگر کسی نے رمضان کے قضا روزے نہیں رکھے، تو شوال کے چھ نفل روزے رکھنے سے “پورے سال روزوں کا ثواب” حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ حدیث میں “من صام رمضان” کا ذکر ہے، یعنی “جس نے رمضان کے (مکمل) روزے رکھے”۔
لہٰذا بہتر ہے کہ پہلے رمضان کی قضا مکمل کی جائے، پھر شوال کے چھ روزے رکھے جائیں۔
نمبر 5- شوال کے روزوں کی حکمت اور فائدے؟
- رمضان کے بعد نیکی کے تسلسل کو برقرار رکھنا۔
- نفس کی تربیت اور روحانی طاقت کا تسلسل۔
- روزہ کے ذریعے صحت کو بہتر بنانا۔
- سال بھر کی عبادت کا ثواب حاصل کرنا۔
نمبر 6- اس پر غلط فہمیاں؟
- کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ روزے واجب یا فرض ہیں، جو درست نہیں۔
- بعض سمجھتے ہیں کہ انہیں صرف لگاتار رکھنا ضروری ہے، جو غلط ہے۔ وقفے سے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
شوال کے چھ روزے کا خلاصہ و نتیجہ؟
شوال کے چھ روزے ایک عظیم سنت اور نفلی عبادت ہیں، جن پر بہت بڑا اجر ملتا ہے۔ یہ روزے رمضان کے بعد ہماری روحانی زندگی کو تازگی اور تسلسل عطا کرتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی عبادت کے سلسلے کو نہ توڑے اور اس سنت پر عمل کرے۔
سوال و جواب کا مختصراََ جائزہ؟
سوال:- کیا یہ روزے صرف لگاتار رکھنے چاہئیں؟
جواب:- نہیں، یہ روزے شوال کے کسی بھی دن رکھے جا سکتے ہیں، لگاتار یا وقفے سے۔
سوال:- اگر رمضان کے روزے قضا ہوں تو شوال کے چھ روزے رکھنا جائز ہے؟
جواب: جی ہاں، لیکن بہتر یہ ہے کہ پہلے قضا روزے مکمل کر لیے جائیں۔
سوال:- کیا عورتیں حیض کی وجہ سے رہ جانے والے رمضان کے روزے بعد میں قضا کریں اور پھر شوال کے رکھیں؟
جواب: جی ہاں، وہ پہلے قضا کریں پھر شوال کے چھ روزے رکھ سکتی ہیں، یا دونوں نیتیں ملا کر ایک ہی روزہ میں بھی بعض فقہاء کے نزدیک رکھ سکتی ہیں، لیکن افضل الگ الگ نیت سے رکھنا ہے۔
اگر آپ چاہیں تو ہم اس مضمون کو تقریر، تحریر اور ویڈیوز اسکرپٹ کی صورت میں بھی ڈھال سکتے ہیں۔ بتائیں کیسا چاہیے؟
Comments and advice please!
0 Comments