آج کا نوجوان اسلام سے بیزار کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ نوجوم نسل دین اسلام اور علماء سے دور کیوں ہوتے جارہے ہیں؟

آج کا نو جوان اسلام سے بیرغبتی اور بیزار کیوں؟

آج کے نوجوانوں میں اسلام سے بیزاری یا بے رغبتی کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں، جوانوں کی معاشرتی، تعلیمی، اور نفسیاتی حالت سے جڑے ہوتے ہیں۔ کچھ اہم وجوہات درج ذیل ہیں:۔

1. مغربی تعلیم اور سیکولر فکر کے اثرات:۔

جدید تعلیمی نظام میں زیادہ تر سیکولر نظریات کو اہمیت دی جاتی ہے، جس میں دین کو ذاتی اور محدود چیز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوان دین کو زندگی کے مختلف شعبوں سے الگ کرنے لگتے ہیں اور اسلام کو ایک پرانی یا غیر ضروری چیز سمجھنے لگتے ہیں۔

2. دینی تعلیمات کی عدم فہمی

بہت سے نوجوانوں کو اسلام کی اصل روح اور تعلیمات کے بارے میں صحیح معلومات نہیں دی جاتیں۔ وہ دین کو سخت اور مشکل سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں صرف چند روایتی باتیں سکھائی جاتی ہیں، جو کہ ان کی عملی زندگی سے دور ہوتی ہیں۔

3. جدید ٹیکنالوجی اور شوشل میڈیا اور منفی پروپیگنڈا

سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا بہت زیادہ ہورہا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے کچھ نوجوان دین سے بیزار ہو تے جارہے ہیں اور علما کرام نوجوانوں کے سوالوں کا جواب اُن کے اشکال کا جواب نہیں دیتے۔

4. معاشرتی اور مذہبی منافقت

نوجوان معاشرے میں دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے لوگ مذہبی پیشواہ جو اسلام کی بات تو کرتے ہیں مگر عملی زندگی میں اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہ دوہرا معیار نوجوانوں کو دین سے دور کر دیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دین کے اُصول صرف باتوں تک محدود ہیں، حقیقت میں ان کا کوئی اثر نہیں۔

5. ذاتی آزادی اور خواہشات

جدید دنیا میں ذاتی آزادی اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا رجحان بہت بڑھ چکا ہے۔ نوجوانوں کو دین کی بعض پابندیاں، جیسے حلال و حرام کا خیال رکھنا، مشکل لگتی ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی زندگی میں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔

6. سوالات اور شکوک و شُبہات کا جواب نہ ملنا

بہت سے نوجوانوں کے دلوں میں دین کے بارے میں سوالات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں، لیکن جب وہ اپنے سوالات کے جواب علماء یا مذہبی شخصیات سے مانگتے ہیں، تو اکثر انہیں تسلی بخش اور منطقی جواب نہیں ملتے۔ اس سے ان کے اندر مزید بیزاری پیدا ہوتی ہے۔

7. اسلامی دنیا کے بگرتے سیاسی حالات

مسلم ممالک میں جاری سیاسی اور سماجی مسائل، جیسے جنگیں، غربت، اور انتہا پسندی، بھی نوجوانوں کو دین سے دور کر سکتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا ترقی پذیر نہیں ہے، اور اس سے وہ یہ تاثر لیتے ہیں کہ شاید اسلام دنیاوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

8. غلط مذہبی رہنمائی اور فرقہ پرستی:۔

بعض اوقات نوجوان ایسے لوگوں سے دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں جو سخت گیر یا محدود نظریات کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو دین کے آسان اور محبت بھرے پہلوؤں سے دور کر دیتے ہیں اور سختیوں پر زور دیتے ہیں، جس سے نوجوان بیزار ہو جاتے ہیں۔ اور بے انتہا فرقہ پرستی بھی جوانوں کو پریشان کر رہی ہے۔ علماء مسلے کو حل کرنے کے بجائے اور فرقہ پرستی ہو ہوا دیتے ہیں۔

ہمارے خیال میں:۔

آج کے نوجوان کو اسلام سے بیزار ہونے کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں، جو کہ ان کی معاشی اور تعلیمی حالات اور ذہنی حالت، سماجی اثرات، اور دینی تعلیمات کی کمی سے جڑی ہوتی ہیں۔ دین کی اصل خوبصورتی اور حکمت کو جدید تناظر میں سمجھانے اور سوالات کے تسلی بخش جواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان دوبارہ اسلام کی طرف مائل ہو سکیں۔ علماء حق کی یہ بہت بڑی زمہ داری ہے کہ وہ جوانوں کے پرابلم کو سمجھیں اور اس کا نفسیاتی حل نکالنے کی کوشش کریں اچھے اخلاق کے ساتھ۔

اسلام سے بیرغبتی اور بیزاری کی مزید وجوہات؟

آج کے نوجوانوں میں اسلام سے بیزاری یا بے رغبتی کی مختلف وجوہات یہ بھی ہو سکتی ہیں کہ جن میں چند اہم پہلو ملاحظہ فرمائیے:۔

1. تعلیمی اور ثقافتی دباؤ

بہت سے نوجوان جدید تعلیمی نظام اور مغربی ثقافت کے زیرِ اثر ہیں، جہاں سائنسی اور سیکولر نظریات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ انہیں اسلام کو پرانے زمانے کی چیز یا دقیانوسی تصور کیا جاتا ہے۔

2. اسلام کی درست تعلیمات کی کمی

کچھ نوجوانوں کو اسلام کی درست تعلیمات نہیں سکھائی جاتیں، جس کی وجہ سے وہ مذہب کو مشکل اور سخت سمجھتے ہیں۔ مدرسوں یا مساجد میں اگر مذہب کی تعلیم روایتی طریقے سے دی جائے، تو وہ جدید سوالات اور چیلنجز کا جواب دینے میں ناکام رہتی ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو دین سے دوری محسوس ہوتی ہے۔

3. مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا کا اثر

مغربی میڈیا میں اسلام کو اکثر منفی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے، جس کا اثر نوجوانوں کی سوچ پر بھی پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اسلاموفوبیا یا دین کے خلاف مواد نوجوانوں کی توجہ کو بدل سکتا ہے۔

4. مذہبی شخصیات کا رویہ

کچھ اوقات مذہبی رہنماؤں یا شخصیات کا سخت گیر یا متنازع رویہ نوجوانوں کو دین سے دور کر دیتا ہے۔ اگر کوئی مذہبی شخصیت نرم خوئی سے بات نہ کرے یا وہ عملی طور پر اخلاقی معیار پر پورا نہ اترے، تو نوجوان دین کو ناپسند کرنے لگتے ہیں۔

5. معاشرتی مسائل اور دوہرے معیار

کچھ نوجوان معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ لوگ اسلام کے اصولوں پر عمل نہیں کرتے، یا دوہرے معیار اپناتے ہیں۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسلام کی باتیں صرف زبانی ہیں اور عملی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔

6. ذاتی آزادی اور جدیدیت

بہت سے نوجوان جدید دنیا میں ذاتی آزادی اور خودمختاری کو اہم سمجھتے ہیں۔ دین کی بعض پابندیاں اور اصول انہیں اس آزادی میں رکاوٹ لگتے ہیں، اس لیے وہ مذہب کو اپنی ترقی اور خوشی کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

7. سوالات اور شکوک کا تسلی بخش جواب نہ ملنا

جب نوجوان اسلام کے بارے میں سوالات کرتے ہیں، جیسے کہ عقائد، عبادات، یا اسلامی تاریخ کے متعلق، تو بعض دفعہ انہیں تسلی بخش اور منطقی جواب نہیں ملتے۔ اس سے وہ کنفیوز یا بیزار ہو جاتے ہیں۔

8. مسلم دنیا کے ناپُختہ سیاسی حالات

مسلم ممالک میں جاری جنگیں، انتہا پسندی، اور سیاسی اور دیگر مسائل کو دیکھ کر کچھ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ موجودہ اسلامی پیشوہ آج کے دنیا میں امن و آمان اور دنیا کی تمام معاملوں میں ترقی اور خوشحالی کی طرف نہیں لے جا سکتے۔ اس کے برعکس وہ مغربی طرزِ زندگی اور نظام کو زیادہ کامیاب دیکھتے ہیں۔

یہ وجوہات مختلف نوجوانوں کے خاندانی پس منظر، تعلیمی صلاحیت اور سائینسی تجربات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ نوجوانوں کو اسلام سے دوبارہ جوڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سوالات اُن کے اشکال کے تسلی بخش جواب دیں جائیں، اور اسلام کی تعلیمات کو جدید دور کے تناظر میں پیش کیا جائے۔ اور علما اپنے باہمی اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔

ہم بحیثیت مدرسہ مدارس اسلام بیزار یوتھ نیو جنریشن کے اشکال سوالات کے جوابات کہاں دیں ؟

ہم بحیثیت مدرسہ مدارس اسلام بیزار یوتھ نیو جنریشن کے اشکال سوالات کے جوابات ایسی جگہ دیں جہاں وہ مطمئن ہوں اسلام کی خدمت انسانیت کی ضرورت مطلب انسانیت کی خدمت اصل میں اسلام کی خدمت ہے اور مدارس اور علماء کا کردار یہ ہی ہے کی وہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کریں یہ ان کا کردار ہے

آج کا نوجوان جہاںبہت سارے معاشرتی اور سماجی اور اخلاقی زبوحالی کا شکار ہے، بلکل اسی وقت ایک بہت بڑا چیلنج دین اسلام سے بیزاری کا بھی ہے۔ تقریباً ہر تیسرا نوجوان اسلام بیزاری کا شکار ہورہا ہے اور اس دین بیزاری کا اظہار یہ نوجوان کھُلم کھلا سوشل میڈیا پر کرتے نظر آرہے ہیں اور اپنے دوستوں احبابوں کے ساتھ بھی بیٹھکوں میں بیٹھ کر اپنے اشکال کا سوالوں کی صورتوں میں ذکر کرتے نظر آرہے ہیں۔ پھر اس کی دین اسلام سے بیزاری یہی نہیں رکتی بلکہ ساتھ بیٹھے دوست بھی ایک وقت آتا ہے کہ وہ بھی اس گفتگو میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور اپنی دین بیزاری کو بھی کھل کر بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح یہ بیزاری کا سرکل بڑھتا چلا جارہا ہے۔ کیا علماء اکرام کو اُن کے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہیئے؟

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا ابھی تیرے سامنے آسمان اور بھی زمین اور بھی ہیں۔۔

شاعر مشرق علامہ اقبال تو اپنی قوم کے ہر جوان کو اس خواب کی تعبیر دیتے ہیں کہ تو شاہین ہے پرواز ہے کام ترا نوجوان ذرا سی کو شش کریں تو آسمان کی وسعتوں کو محدود کر سکتے ہیں ۔ اقبال نے قوم کے نوجوانوں کو شاہین کا تصور دیا شاہین کا فلسفہ دیا۔ علامہ اقبال اپنے قوم کے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوجوانان اسلام اپنے اندر شاہینی صفات پیدا کرے اور آسمان کی وسعتوں کو مسخر کرے ۔

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھیں وہ نظر کیا؟

علامہ ڈاکٹر اقبال مسلمان نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو بلندی پر اپنا مسکن اپنا ٹھیکانا بناتا ہے۔ اپنی تیز نگاہوں ذوق نظر کے باعث شاہین بلندی سے ہی اپنا شکار تلاش کرلیتا ہے۔ اقبا ل شاہین کی ساری خوبیاں اپنے مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ مسلم جوان تیز، چست اور اپنے ٹارگیٹ کو اپنے ہدف کو پورا کرنے والے بنے اور اس کا اظہار علامہ اقبال اپنے اشعار میں کیا کرتے تھے۔

وجوانوں کی اہمیت:- یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تعمیر و ترقی میں نوجوان کا رول بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم کے نوجوانوں کا کردار بہتر رہا پازیٹیو رہا اس قوم کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکا ۔ ترقی اُس کی نصیب میں آئی۔

حضرت عبداللّہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

مفہوم یہ ہے کہ: قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے ۔ 1-عمر کن کاموں میں گنوائی؟ 2- جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ 3- مال کہاں سے کمایا؟ اور 4- کہاں خرچ کیا-5- جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا ؟(ترمذی باب صفتہ القیامتہ) الفاظوں کی غلطیوں کو اللّہ کریم معاف فراماے آمین۔

اگر غور و فکر کیا جائے تو اس حدیث پاک میں چار سوال جوانی سے تعلق رکھتے ہیں – “ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ اس میں جوانی کا دور بھی شامل ہے ۔ مال کمانے کا سوال بھی اسی گزرے ہوئے عمر سے شروع ہوتا ہے ۔ حصول علم کا تعلق بھی اسی عمر سے ہوتا ہے۔ نوجوان ہی ایک قوم کو ترقی یافتہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ایک نوجوان کی اہمیت و افادیت

آج کے پُر فتن دور میں مسلمان نوجوانوں کا کردار

دور حاضر میں نوجوانوں کا کردار:- نوجوان اپنی قوتوں، اپنی صلاحیتوں اپنی خواہیشوں اور امنگوں، اپنی جواں ہمتی اور جفاکشی، بلند سوچ و فکر کی پروازوں کو اور عزائم و استقلال کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ کسی بھی قوم و ملک کی کامیابی و ناکامی فتح و شکست ترقی و تنزول اور عروج و زوال میں نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ، معاشرتی سطح کا ہو یا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی و نشریاتی میدان ، غرض سبھی شعبوں میں جوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور فائنل ہوتا ہے۔ ہر کامیابی اور ترقی میں نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے ۔ ماضی قریب میں بھی چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے زریعے آئی ہے۔ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے اسلامی تحریک ہو یا سیاسی تحریک ہو یا سماجی تحریک ہو یا عسکری تحریک ہو ان تعمیری کاموں میں انقلابی کاموں میں نوجوان ہی بیش پیش رہے ہیں ۔ اگر ان جوانوں اسلامی انقلابی عقل و فہم مل جائے تو مستقبل میں بھی یہ جوان کامیابی کا جھنڈا بُلند کر سکتے ہیں۔ مگر ان جوانوں کے اشکال کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *