انسان اپنے آغاز سے ہی انجام پر نظر رکھے، تاکہ کوئی حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔
رب کریم کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت ہی پیاری اور قیمتی اور نایاب نعمت وقت ہے۔ زندگی میں وقت ایک ایسی نعمت ہے جو ہر انسان کو یکساں ملتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ غریب کےلئے دن و رات میں 24 گھنٹےہیں اور امیر کے لیے دن اور رات میں 26 گھنٹے ہیں ۔ اور اب ہم انسان پر یہ مُنحصر ہےکہ ہم ان اوقات کی قدر کرتے ہیں یا ہم اپنے وقت کو اپنے ہاتھوں سے آپ برباد کرتے ہیں۔
کوئی دن ایسا نہیں کہ جب وہ دن طلوع ہوتا ہو مگر یہ کہ وہ دن پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! میں ایک نوپید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کرلے، میں قیامت تک لوٹ کر واپس نہیں آؤں گا۔ دنیا کی تمام چیزیں ضائع ہوجانے کے بعد واپس آسکتی ہیں۔ لیکن ضائع شدہ وقت واپس نہیں آسکتا۔
اوقات تین طرح کے ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:۔
نمبر 1 :-وہ وقت جس کے بارے میں انسان کو کچھ سوچنا نہیں ہے کہ وہ کیسے گزرا، مشقت میں یاعیش وعشرت میں۔
نمبر 2 : – دوسرے نمبر پر : وہ وقت آنے والا ہے جو ابھی تک نہیں آیا ، اور انسان نہیں جانتا کہ اس کے آنے تک وہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں اور اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ اس میں اُس کے ساتھ کیا فیصلہ فرمانے والا ہے ۔
نمبر 3 :- تیسرے نمبر پر وقت وہ ہے جو حاضر وموجود ہے ۔ آج میرے پاس یہ وقت ہے مگر کل کا نہیں پتہ: -۔
اگر آنے والا وقت نہ بھی مل سکا تو کم ازکم موجودہ وقت کے ضائع ہونے پر حسرت تو نہیں کرنی پڑے گی اوراگر آنے والا وقت آگیا تو اس کاحق بھی وہ اسی طرح ادا کرے جس طرح پہلے وقت کا کیاہے اور انسان اپنی آرزوؤ ں کو پچاس سال تک دراز نہ کرے، بلکہ جو وقت ملا ہے، اس سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کا عزم کرے، اوربالکل نظم و ضبط کا پابند ہوکر اس طرح اس وقت کا استعمال کرے، گویا یہ اس کی زندگی کا یہ آخری وقت ہے یا آخری لمحات ہے۔
سورۃ الفاطر میں ارشاد ربانی ہے: کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈر سنانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزا چکھو، سو ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہ ہوگا۔‘‘یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کے باعث اسلام میں نظم و ضبط اوروقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اسے ضائع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا : بےشک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے) ۔
دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوئے ۔ جنہوں نے وقت کی قدر کی ۔ دنیا کی ہر کھوئی ہوئی چیز واپس مل جاتی ہے مگر وقت نہیں ۔ صرف ایک گزرا ہوا وقت لوٹ کر نہیں آتا۔
دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوئے جنہوں نے وقت کی قدر کی: وقت کی قدر و قیمت کیا ہے؟
وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیمُ شان نعمت اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی اور ہرسیکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی۔
آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے یوں ہی فضول باتوں میں اور بن مقصد کاموں میں اپنے وقت کو ضائع کردیتے ہیں۔
اصول و قواعد اور نظم و ضبط کی پابندی اور وقت میں عجیب اور حہرت انگیز اور امیر و امٰر جیسے واقعات اور خیر و برکت اور اس کے بے مثال ثمرات ۔ وقت کی پابندی میں ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام کو یہ نصیحت کی تھی جو مجھے اور آپ کو بھی یاد رکھنی چاہیے وقت کی قدر کریں اور اسکی تنظیم ۔۔۔۔
وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک گرانقدر نعمت ہے، پگھلتے برف کی طرح آناً فاناً گذرتا رہتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ مہینے اور سال گذر جاتے ہیں۔
صبح ہوئی شام ہوئی – عمر{ زندگی } یونہی تمام ہوئی۔
پس وقت کی قدردانی بہت ضروری ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا، بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا ازحد ضروری ہے، وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقلمندی کاکام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔
ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام – ورنہ نادان بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے۔
حدیث میں ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ جب وہ طلوع ہوتا ہو مگر یہ کہ وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! میں ایک نوپید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کرلے، میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ دنیا کی تمام چیزیں ضائع ہوجانے کے بعد واپس آسکتی ہیں۔ لیکن ضائع شدہ وقت واپس نہیں آسکتا۔
تیری زندگی چند محدود گھڑیوں کا نام ہے، ان میں سے جو گھڑی گذرجاتی ہے، اتنا حصہ زندگی کا کم ہوجاتا ہے۔
لہٰذا وقت کی پوری نگہداشت کرنا چاہئے، کھیل کود میں خرافات میں، ادھر ادھر کی باتوں میں اور لغویات میں قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ یَعْنِیْةِ“ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑ دے۔
اس حدیث میں لطیف پیرایہ میں اضاعت اوقات سے ممانعت اورحفاظت اوقات کے اہتمام کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی ہر ایسے قول وعمل اور فعل و حرکت سے احتراز کرے جس سے اس کا خاطر خواہ اورمعتد بہ دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو۔
وقت ایک عظیم نعمت ہے:۔
وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی اورہرسکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی، لیکن آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے کہ یونہی فضول باتوں میں اور لغو کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو۔
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے پاس ایک طالب علم نے آکر کھیل کے متعلق سوال کیا، حضرت نے فرمایا کیوں کھیلتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وقت پاس کرنے کو کھیلتے ہیں، اس پر فرمایا کہ وقت پاس کرنے کیلئے یہاں آجایا کریں، وقت گذارنے کا طریقہ بتلادوں گا۔ کتاب دیدوں گا کہ یہاں سے یہاں تک یاد کرکے سنائیں، اس کے بعد فرمایا وقت حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اسے غبار سمجھ کر پھینک دینا بڑی ناقدری ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اشرفیوں کا ڈھیر کسی کے سامنے ہو اور وہ ایک ایک اٹھاکر پھینکتا رہے۔
تیرا ، میرا ہر سانس نخل مُوسوی ہے – یہ جُز رو مد جواہر کی لڑی ہے ۔
اسلاف کے نزدیک وقت کی اہمیت کیا تھی؟
اسلاف کی زندگی میں اوقات کی اہمیت اور قدر دانی نمایاں طریقہ پر تھی، کوئی گھڑی اور لمحہ ضائع نہیں کرتے تھے ۔ یہی وقت وہ چیز تھی جس نے ان کو اعلیٰ درجہٴ کمال پر پہنچایا تھا۔
امام محمد علیہ الرحمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ دن و رات کتابیں لکھتے رہتے تھے۔ ایک ہزار تک ان کی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔ اپنے تصنیف کے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے۔ مشغولیت اس درجہ تھی کہ کھانے اور کپڑے کا بھی ہوش نہ تھا۔ (انوارالباری)
حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کی جو مطالعہ گاہ تھی، اس کے تین دروازے تھے، ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جوتے رکھوائے تھے تاکہ اگر ضرورت کے لئے باہر جانا پڑے تو جوتے کیلئے ایک منٹ بھی ضائع نہ ہو۔
حضرت علامہ صدیق احمد صاحب کشمیری اپنی طالب علمی کے زمانے میں صرف روٹی لیتے تھے، سالن نہ لیتے تھے، روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے، جب موقع ہوتا کھالیتے اور فرماتے روٹی سالن کے ساتھ کھانے میں مطالعہ کا نقصان ہوتا ہے۔
شیخ جمال الدین قاسمی کے وقت کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر فرماتے تھے۔ سفر میں ہو، یا حضر میں، گھر میں ہو یا مسجد میں، مسلسل مطالعہ اور تالیف کا کام جاری رکھتے تھے، سوانح نگاروں نے لکھا ہے:
مَضٰی رَحِمَہ اللّٰہ یَکْتُبُ دُوْنَ اِنْقِطَاعٍ فِی اللَّیْلِ وَفِی النَّہَارِ، وَفِی الْقِطَارِ، وَفِی النُّزْہَةِ، فِی الْعَرَبَةِ فِی الْمَسْجِدِ، فِی سُدَّتِہِ فِی بَیْتِہِ، وَاَظُّنُّ اَنَّ الطَّرِیْقَ وَحْدَہ ہُوَ الَّذِیْ خَلاَ مِنْ قَلَمِہِ وَقَدْ کَانَ فِی حَبِیْبِہِ دَفْتَرٌ صَغِیْرٌ وَقَلَمٌ، یُقَیِّدُ الْفِکْرَةَ الشَّارِدَةَ ․
(یعنی اللہ ان پر رحم فرمائے ہر وقت لکھتے رہتے تھے، کیا دن، کیا رات، کیاسفر کیا حضر، کیا مسجد، کیاگھر، میرا خیال تو یہ ہے کہ سوائے دوران رفتار کے کسی اور وقت ان کے قلم کو قرار نہیں تھا۔ ان کے جیب میں ایک نوٹ بک اور قلم پڑا رہتا تھا، جسکے ذریعہ وہ اپنے منتشر افکار کو محفوظ کرلیتے تھے۔)
جولوگ بازاروں میں، چائے خانوں میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہتے تھے، ان کو دیکھ کر حسرت فرماتے اور عجیب بات فرماتے، تذکرہ نگار لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَخَسَّرَ مَرَّةً وَہُوَ وَاقِفٌ اَمَامَ مَقْہٰی قَدْ اِمْتَلا بِاُنَاسٍ فَارِغِیْنَ یُضَیّعُوْنَ الْوَقْتَ فِی اللَّہْوِ وَالتَّسْلِیَةِ فَقَالَ لِبَعْضِ مُحَبِّیْہِ آہ! کَمْ اَتَمَنّٰی اَنْ یَّکُوْنَ الْوَقْتُ مِمَّا یُبَاعُ لَاَشْتَرِی مِنْ ہٰوُلاَءِ جَمِیْعًا اَوْقَاتِہُمْ․
(ایک دفعہ وہ قہوہ خانے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے، جو لوگوں سے بھراہواتھا اور وہ لوگ لایعنی اور ٹھٹھے میں مشغول تھے، نہایت حسرت کے ساتھ اپنے ایک ساتھی سے فرمایا آہ! جی یوں چاہتا ہے کہ وقت کوئی ایسی شئے ہوتی جو بیچی خریدی جاسکتی تو میں ان سب لوگوں کے اوقات کو خریدلیتا۔) (اقوال سلف)
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے یہاں بھی حفاظت اوقات کا بڑا اہتمام تھا، حتی کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحرک رہتی تھی۔ کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتاتھا۔
ایک مرتبہ مغرب کے بعد ایک طالب علم حاضر خدمت ہوئے، حضرت اس وقت کھانا تناول فرمارہے تھے، وہ سلام کرکے خاموش گردن جھکاکر بیٹھ گئے، حضرت نے فرمایا نوراللہ! کیا خاموش بیٹھے ہو؟ عرض کیا جی نہیں حضرت! قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تو فرمایا ہاں! وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
مولائی وسیدی حضرت اقدس مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی دامت برکاتہم کے یہاں بھی احقر نے اوقات کا بڑا اہتمام دیکھا، ہروقت کسی نہ کسی کام میں مشغولی ہے۔
ماہ مبارک کاآخری عشرہ تھا، علالت وآپریشن کے سبب ضعف بہت تھا اس لئے ایک دو آدمی کے سہارے چلتے پھرتے تھے، چنانچہ افطار کے وقت اپنے معتکف سے مسجد کے صحن میں عام دسترخوان پر ایک صاحب کے سہارے تشریف لائے، غروب قریب تھا، حضرت نے فرمایا کتنا وقت باقی ہے؟ کہا گیا دو منٹ، تو فرمایا بھائی پہلے بتادیتے۔ اگر ایک منٹ بھی ہوتا تو کچھ کام کرلیتے، اللہ اکبر یہ ہے اکابر کے یہاں اوقات کی قدردانی۔
امام رازی کے نزدیک وقت کی اہمیت کیا تھی؟
امام رازی کے نزدیک اوقات کی اہمیت اس درجہ تھی کہ ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے خالی جاتا ہے۔
چنانچہ فرمایاکرتے تھے: ”وَاللّٰہِ اِنِّی اَتَاَسَّفُ فِی الْفُوَاتِ عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِالْعِلْمِ فِیْ وَقْتِ الْاَکْلِ فَاِنَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزِیْزٌ“ یعنی خدا کی قسم! مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت متاع عزیز ہے۔
در بزم وصال تو بہنگّم تماشا – نظارہ زجنبیدن مژگان گلہ دارد۔
وقت کی قدر دانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا زبردست امام بنایا کہ دنیا ان کی امامت کو تسلیم کرتی ہے۔
امام رازی کے نزدیک وقت کی اہمیت اور وقت کی حفاظت کیسے؟
امام رازی کے نزدیک اوقات یعنی وقت کی اہمیت اس درجہ پر تھی کہ ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ کھانے پینے کا وقت کیوں علمی مشاغل اور علم کے حصول سے خالی جاتا ہے۔ یعنی بہت ساری چیزوں میں یا کام سے انسانی وقت برباد ہوتا ہے۔
چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے:- ”وَاللّٰہِ اِنِّی اَتَاَسَّفُ فِی الْفُوَاتِ عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِالْعِلْمِ فِیْ وَقْتِ الْاَکْلِ فَاِنَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزِیْزٌ“ یعنی خدا کی قسم! مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت متاع عزیز ہے۔
در بزم وصال تو بہنگام تماشا – نظارہ زجنبیدن مژگان گلہ دارد
وقت کی قدر دانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا زبردست امام بنایا کہ دنیا ان کی امامت کو آج بھی تسلیم کرتی ہے۔
حافظ ابن حجر وقت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
حافظ ابن حجر عسقلان کے حالات زندگی میں یہ آتا ہے کہ وہ وقت کے بڑے قدردان تھے۔ ان کے اوقات معمور رہتے تھے۔ کسی وقت خالی نہ بیٹھتے تھے۔ اپنے وقت کو برباد کرنے سے بچتے تھے۔
تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے تھے،مطالعہٴ کتب یا تصنیف و تالیف، یا عبادت۔ (بستان المحدثین)
حتی کہ جب تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول ہوتے اور درمیان میں قلم کا نوک خراب ہوجاتا تو اس کو درست کرنے کیلئے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا، اس کو بھی ضائع نہ کرتے، ذکر الٰہی زبان پر جاری رہتا اور نوک درست فرماتے اور فرماتے وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے نزدیک وقت کی کیا اہمیت تھی؟
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ نہایت منتظم المزاج و مستقل مزاج اور اصول و ضوابط کے پابند تھے۔ وقت کے کسی لمحات کو ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ کھانے، پینے، سونے، جاگنے اوراٹھنے بیٹھنے کے تمام اوقات مقرر تھے، جن پر سختی سے عمل فرماتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے وقت میں برکت بھی بڑی عطا فرمائی تھی۔
خود فرماتے ہیں کہ مجھے انضباط اوقات کا بچپن ہی سے بہت اہتمام رہا ہے۔ جو اُس وقت سے لے کر اب تک بدستور موجود ہے، بدستور قائم ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ، میں ایک لمحہ بھی بیکار رہنا برداشت نہیں کرتا۔
ایک مرتبہ میرے استاذ حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی تھانہ بھون تشریف لائے، میں نے ان کے قیام اور راحت رسانی کے تمام انتظامات کئے، جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا کہ حضرت میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں۔ اگر حضرت اجازت دیں تو کچھ دیر لکھ کر پھر حاضر ہوجاؤں، گو میرا دل اس روز کچھ لکھنے میں لگا نہیں۔ لیکن ناغہ نہیں ہونے دیا کہ بے برکتی نہ ہو۔ تھوڑا سا لکھ کر جلد حاضر خدمت ہوگیا۔ حضرت کو تعجب بھی ہوا کہ اس قدر جلد آگئے، عرض کیا حضرت! چند سطریں لکھ لیں معمول پورا ہوگیا۔ (ملفوظات حکیم الامت)
نضباط اوقات سے وقت میں عجیب برکت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے اسلاف و اکابر کی زندگی میں برکت کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ تھوڑے سے عرصہ میں انھوں نے محیرالعقول کارنامے انجام دئیے ہیں۔
علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ میری پہلی تصنیف اس وقت ہوئی ہے جب میری عمر تقریباً تیرہ برس کی تھی۔ آپ کے پوتے ابوالمظفر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سے آخری عمر میں برسرمنبر یہ کہتے سنا ہے کہ میری ان انگلیوں نے دوہزار جلدیں لکھی ہیں۔ میرے ہاتھ پر ایک لاکھ آدمیوں نے توبہ کی ہے اور بیس ہزار یہود ونصاریٰ مسلمان ہوئے ہیں، علامہ موصوف کی تصانیف کو دیکھ کر علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی عالم نے ایسی تصنیفات کیں جیسی آپ نے کیں، جن قلموں سے شیخ نے حدیث شریف کی کتابیں لکھی تھی، ان کاتراشہ جمع کرتے گئے تھے۔ جب وہ وفات پانے لگے تو وصیت کی کہ میرے غسل کا پانی اسی تراشے سے گرم کیا جائے چنانچہ جس پانی سے ان کو غسل دیاگیااس کے نیچے وہی پاک ایندھن جلایاگیا تھا۔
عام حالت میں بسر کی زندگی تونے تو کیا – کچھ تو ایسا کر کہ عالم { دنیا } بھر میں تیرا افسانہ {چرچا} ہو۔
ابن جریر طبری کے حالات میں صاحب البدایہ والنہایہ نے لکھا ہے ”رُوِیَ عَنْہ اَنَّہ مَکَثَ اَرْبِعِیْنَ سَنَةً یَکْتُبُ وَکُلَّ یَوْمٍ یَکْتُبُ اَرْبَعِیْنَ وَرَقَةً“ کہ وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ)
درس نظامی کی مشہور اور معروف کتاب ”تفسیر جلالین شریف“ کو اس کے مصنف علامہ سیوطی نے بیس بائیس سال کی عمر میں بہت قلیل مدت میں یعنی صرف چالیس روز میں لکھی ہے اور آج پورے سال میں بڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے۔
علامہ نووی نے بستان میں ایک معتمد شخص سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام غزالی کی تصانیف اور ان کی عمر کا حساب لگایا تو روزانہ اوسط چار کراسہ پڑا، کراسہ چار صفحوں کا ہوتا ہے یعنی سولہ صفحے روزانہ ہوئے، اور علامہ طبری، ابن جوزی اور علامہ سیوطی کی تصنیفات کاروزانہ اوسط اس سے بھی زیادہ ہے۔
حضرت مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کے حالات میں ہے کہ عنفوان شباب کی سترہ سالہ عمر ہی میں تحصیل علوم سے فراغت پاکر مسند درس پر فائز ہوگئے تھے اور ہر فن میں کامل دسترس رکھتے تھے، علم حدیث ہوکہ علم اسناد و رجال، علم تفسیر ہوکہ علم فقہ وفتاویٰ، فلسفہ ہوکہ ریاضی وہیئت ان تمام علوم میں آپ کی بیش بہا تصانیف کا ذخیرہ موجود ہیں جن کی تعداد بقول شیخ ابوالفتاح ابوغدہ کے ایک سو بیس ہے اور آپ کی عمر صرف انتالیس سال ہے، اتنی قلیل عمر میں دوسرے مشاغل کے ساتھ اس قدر تصانیف عطیہٴ خداوندی ہے، آپ کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کے صفحات کو آپ کے ایام زندگی پر تقسیم کیاجاوے تو صفحات کتب ایام زندگی پر فوقیت لے جائیں گے۔ (ملخص از نفع المفتی والسائل)
بلوغ کے بعد سے آپ کی زندگی پر تصانیف کو تقسیم کا اندازہ لگایا گیا تو ہر دو ماہ اور بارہ تیرہ روز پر ایک تصنیف ہوتی ہے جب کہ ہر تصنیف کا اوسط ایک سو اٹھارہ صفحات سے زیادہ نکلتا ہے۔
ایک جگہ شیخ جمال الدین اپنا حال یوں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
وَقَدْ اِتَّفَقَ لِی بِحَمْدِہِ تَعَالٰی قِرَائَةَ صَحِیْح مُسْلِمْ بِتَمَامِہِ رِوَایَةً وَدرَایَةً فِی اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا وَقِرَأةَ سُنَنِ اِبْنِ مَاجَہ کَذٰلِکَ فِی وَاحِدٍ وَعِشْرِیْنَ یَوْمًا وَقِرَأَةَ الْمُوٴَطَّا کَذٰلِکَ فِی تِسْعَةَ عَشَرَ یَوْمًا وَتَقْرِیْبَ التَّہْذِیْبِ مَعَ تَصْحِیْحِ سَہْوِ الْقَلَمِ فِیْہِ وَتَحْشِیَتِہ فِی نَحْوِ عَشَرَةِ اَیَّامٍ فَدَعْ عَنْکَ الْکَسْلَ وَاحْرِصْ عَلٰی عَزِیْزِ وَقْتِکَ بِدَرْسِ الْعِلْمَ وَاِحْسَانِ الْعَمَلِ․
یعنی اللہ کے فضل سے مجھے یہ توفیق ملی کہ میں نے پوری صحیح مسلم روایة اور درایة صرف چالیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح سنن ابن ماجہ اکیس دن میں، امام مالک کی موٴطا انیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح تقریب التہذیب دس روز میں پڑھ ڈالی ہے، جبکہ دوران مطالعہ اس کی قلمی غلطیوں کو درست بھی کیا اور حاشیہ بھی ساتھ ساتھ لکھتا گیا، پس اے طلبہ! میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ سستی اور کاہلی ترک کردو اور اپنے اوقات عزیز کو حصول علم اور حسن عمل کی محنتوں میں کھپاؤ۔ (اقوال سلف)
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ آپ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے اس اخیر دور میں نابغہٴ روزگار بنایاتھا، آپ سے جتنا کام لیاگیا بہت کم لوگوں سے لیاگیا ہوگا، ایک ہزار کے قریب آپ کی تصانیف ہیں، آپ کے زبردست کارناموں کو دیکھ کر بسا اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ایسے کارنامے کسی ایک فرد کے نہیں بلکہ کسی بڑے ادارے یا اکیڈمی کے ہیں۔
بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا فرزانہ – بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ { حیاتِ زندگی}
رب ذُوالجلا ل ولاکرام نے وقت میں اتنی برکت عطا فرمائی ہے کہ اس کی مثال قرون اولی میں بھی نہیں ملتی اور خال خال ہی نظر آتی ہے ۔ علم فقہ و فتاویٰ ہو یا علوم تفسیر ہو یا اسرار و حکم ہو یا ادب و آداب ہو یا معاشرہ و سماج ہو یا شرح حدیث ہو یا سلوک و تصوف ہو کس علم کا کونسا ایسا گوشہ ہے جس میں ہمارے اسلاف نے کتابوں کے انبار نہیں لگا دئیے ہوں ۔ ہمارے سلف نے واعظ وملفوظات کا اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے کہ عمر نوح چاہئے اس کی سرسری سی سیر ہی کیلئے۔
اسلاف کی زندگی میں وقت کی اہمیت و برکت تھی۔
ایک برف فروش سے مجھے بہت عبرت ہونی چاہیے ، وہ برف بیچنے والا یہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے یعنی یہ برف جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح ہم تھوڑی تھوڑی ختم ہو رہے ہیں ۔ ہماری زندگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے یعنی استعمال کرنے کی فکر کرو۔ ورنہ خالی ہاتھ ہو جائے گا۔
آ ج ہمارے معاشرے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ نظم و ضبط کی کمی اوروقت کی ناقدری ہے، اس کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کر نے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا ،گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا ، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا ،اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اور عمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے بہت آسان بن گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی، شر کی نذر کر دیا جائے تو پھر مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حضرت عبدﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا :’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘ (صحیح بخاری، سنن ترمذی) اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور انہیں کبھی زوال نہیں آنا، حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔
لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔حضور اکرمﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے : 1۔ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ 2۔ اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟ 3۔ مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا؟ 4۔ اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا؟‘‘(جامع ترمذی)۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لئے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہیے۔‘‘(مسنداحمد بن حنبل)
حضور اکرمﷺ کس قدر وقت کی اہمیت اور اعمال صالحہ کا احساس دلارہے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور کوئی اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی ذرہ بھر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے ،بلکہ فوراً نیکی کر ڈالے۔ حضرت عبد ﷲ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ پانچ چیزوں کوپانچ سے قبل غنیمت سمجھو ، زندگی کو مر نے سے پہلے اور صحت کو بیماری سے پہلے اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور مال داری کو فقر سے پہلے۔(مستدرک حاکم) میں ہے۔
حدیثِ پاک میں ہر صاحب ِ ایمان کے لیے یہ تعلیم ہے کہ اس فانی زندگی کے اوقات و اَدوار کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ گزارے ، زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات کا استحضار رکھے کہ کل روزِ قیامت اس کی ہرہر چیز کا حساب ہو گا ، اس سے ہر چیز کے بارے میں باز پُرس ہو گی اور اسے اپنے ہر ہر قول و فعل کا جواب دینا ہے، قیامت کے دن اس کے اعمال نامے کو تمام اوّلین و آخرین کے سامنے پیش کیا جائے گا ، یہ وقت بڑی قیمتی دولت ہے، اس سے جو فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ کر لیا جائے، آج صحت و تند ستی ہے، کل نہ معلوم کس بیماری کا شکار ہو نا پڑجائے۔
آج جوانی کا سنہرا دور ملا ہوا ہے، کل بڑھا پے میں نہ جانے کن احوال سے سابقہ پڑے اور کیا امراض و عوارض لگ جائیں آج صاحبِ حیثیت ہیں، کل پتا نہیں کیا حالت ہو جائے؟ اس لیے جو کر نا ہے کرلیا جائے، جو کمانا ہے کمالیا جائے، جو فائدہ اٹھا نا ہے اٹھالیا جائے، ورنہ’’وقت دودھاری تلوار ہے‘‘، اگر تم نے اسے نہ کاٹا، وہ تمہیں کاٹ ڈالے گی ،ارشاد نبویؐ ہے :صحت اور فراغت دو ایسی عظیم نعمتیں ہیں، جن کے سلسلے میں بے شمار لوگ خسارے میں رہتے ہیں، اس لیے بعد میں پچھتانے سے یہ بہتر ہے کہ انسان آج ہی قدرکر لے۔(بخاری، ترمذی) میں ہے۔
عمو ماًجن صالح بندوں کے مزاج میں دین داری اور نیکی ہو تی ہے، وہ وقت کے قدر دان ہوتے ہیں اور اپنی آخرت بنانے اور دنیا سنوار نے کی فکر انہیں دامن گیر ہو تی ہے، وہ بےکاری، آوارگی، لہو و لعب اور فضولیات میں اپنا وقت ضائع نہیں کر تے، کسی کا برائی سے تذکرہ کر نے ،عیب جوئی کرنے اور بہتان تراشی اور بے کار ولا یعنی گفتگو کی انہیں فرصت نہیں ملتی ، ان کی عملی زندگی حدیث نبویؐ کی عملی تصویر ہو تی ہے :ترجمہ: بےشک انسان کے اچھا مسلمان ہونے کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار اور فضول چیزوں کو چھو ڑ دے۔(ترمذی ۲/ ۵۸)
حضرت ابوذرؓ نے روایت کیاہے ’’مومن صرف تین چیزوں کا آرزو مند ہوتاہے (۱) توشہ آخرت کی فراہمی،(۲) معاش کے لئے تگ و دو،(۳) حلال چیزوں سے لطف اندوزی۔ اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ہر ایک مسلمان کو اپنے اوقات کس انداز میں ترتیب دینےچاہییں اورایک مومن ومسلم سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کو یا تو عبادت میں لگائے ، اوراس کے بعد معاش کے حصول میں صرف کرے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے فرائض کے بعد جو فریضہ انسان پر عائد ہوتاہے، وہ حلال کمائی کا حصول ہے اور اس کے بعد جو وقت بچے، وہ اسے جائز تفریحات میں صرف کرے۔
اسلام نے جہاں ہر چیز کی حدود بتائی ہیں، وہیں اس نے تفریحات کی بھی حدود بتائی ہیں ۔بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ماضی کی خوش کن یادوں میں یا پھر ماضی کی تلخیوں میں کھوئے رہتے ہیں اوربہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مستقبل کے حسین خواب دیکھتے ہیں اور آرزؤں اورتمناؤ ں کے محل تعمیر کرتے رہتے ہیں۔
حالا نکہ غور سے اگر دیکھاجائے تو ماضی گزر چکا ہے اور مستقبل آنے والا ہے اورآنے والا وقت کیسا ہوگا، اس بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں ، اس لئے اصل وقت جو ہر انسان کو حاصل ہے، وہ حال کا وقت ہے جس میں آپ اورہم ہر ایک جی رہا ہے۔ امام غزالیؒ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
بیشک اس زندگی میں وقت سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں ہے:۔
اگر آج ہمارے پاس وقت ہے تو یہ زندگی ہے اور اگر وقت نہیں ہے تو یہ زندگی بھی نہیں ہے۔
وقت وہ گوہر ہے جو انتہائی قیمتی ہے۔ بلکہ انمول ہے ۔ سورۃ العصر ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی زندگی اور وقت کی اہمیت کو سمجھیں اور زندگی یوں گزاریں کہ ہمارے پاس توحید ہو ، ایمان ہو اور نیک اعمال ہوں ہم قرآن اور حدیث و سنتوں کے پابند ہوں ، نیک کام خود کریں اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دینے والے بنیں۔ اگر ہم ایسا عمل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان شاءاللہ ہمار ا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا جو اللہ پاک کے فضل و کرم میں ہوں گے۔ آمین۔ اور یہ سب وقت کی قدر دانی میں پنہاں ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم وقت کی قدر کریں اور اسے نیک کاموں میں صرف کریں تاکہ دونوں جہاں کی کامیابی ہمارا مقدر بن سکے۔
اللّہ سُبحان تعلیٰ ہمیں وقت جیسےانمول ہیرے کی قدر کرنے کی اور اس وقت کا درست استعمال کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین۔
0 Comments