نبی اکرم ﷺ کا آخری حج (حجۃ الوداع)
حضرت اسماء بنت ابو بکر فرماتی ہیں [ سُنن آبی داود حدیث نمبر 1818 اور مُسند احمد جلد نمبر 6 حدیث نمبر 344 ] ۔ میں درج ہے وہ یہ کہ : – ہم رسول اللّہ ﷺ کے ساتھ حج کے لیے نکلے ۔ تو عُرج نامی وادی میں پہنچے تو رسول اللّہ وہاں پڑاو فرمایا ۔ امّی جان حضرت عائشہ صدیقہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گئیں ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنه مال برداری کرنے والا اُنٹ ابو بکر صدیق کے ایک غلام کے پاس تھا ۔ لیکن وہ غلام تاحال پڑاو کے مقام تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق اُس غلام کا انتظار کر رہے تھے کہ کب وہ غلام یعنی نوکر یا ورکر اُنہیں دیکھائی دیتا ہے ۔ اور وہ اُونٹ بمع مال و اسباب کے حضور محمد ﷺ کی خدمت اقدس میں وہ مال پیش کر سکیں ۔
پھر وہ غلام آخر کار میدان میں پہنچ گیا ، مگر اُس غلام کے پاس وہ اونٹ جو مال و اسباب سے لدا ہوا تھا وہ اونٹ اُس غلام کے پاس نہیں تھا۔ یعنی اونٹ کے بیغیر غلام حاضر ہوا ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے اُ غلام سے دریافت فرمایا کہ اے غلام جو تمہارے پاس اونٹ تھا وہ کہاں ہے؟
غلام نے جواب دیا کہ گُزشتہ رات وہ اونٹ مجھ سے کہیں گُم ہو گیا ہے۔ اِس خبر پر ابو بکر کو غُصہ آگیا اور ابو بکر یہ کہہ کر اُسے مارنے لگے کہ ایک ہی تو اونٹ تھا تو نے اُسے بھی سمبھال نہیں سکا ۔ اُسے گُم کردا؟
رسول اللّہ ﷺ نے یہ منظر دیکھ کر مُسکرانے لگے اور فرمایا { سُنن ابی داود اور مُسند احمد حدیث نمبر 1818 میں یہ موجد ہے – اور مُسند احمد کے جلد نمبر 6 حدیث نمبر 344 ہے۔
نبی کریم نے فرمایا کہ اِس محرم یعنی صاحب احرام کو دیکھو کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ مُسند احمد اور سُنن آبی داود:۔
اللّہ سُبحانُ تعلیٰ ۔ سورہ آل عمران 3/181 میں فرماتے ہیں کہ:۔
ترجمہ مکہ – مولانا جوناگڑھی صاحب
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سنا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں (١)۔ ان کے اس قول کو ہم لکھ لیں گے۔ اور ان کا انبیاء کو قتل کرنا بھی (٢) اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلانے والا عذاب چکھو۔
بے شک اللہ نے ان کی بات سنی ہے جنہوں نے کہا کہ:- بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم دولت مند ہیں، اب ہم ان کی بات لکھ رکھیں گے اور جو انہوں نے انبیاء کے ناحق خون کیے ہیں اور کہیں گے کہ جلتی آگ کا عذاب چکھو۔
۔ لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ:اوپر کی آیات میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے پر زور دیا، اب ان آیات میں یہود کے اعتراضات کا بیان اور ان کا جواب دینا مقصود ہے۔ دراصل یہود یہ اعتراضات نبوت پر طعن کی غرض سے کرتے تھے۔ کتب تفسیر میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ [ البقرۃ : ۲۴۵ ] (کون ہے جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض) تو بعض یہود نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا : ’’ لو جی، اللہ تعالیٰ بھی فقیر ہو گئے ہیں اور بندوں سے قرض مانگنے پر اتر آئے ہیں۔‘‘ تو ان کے جواب میں یہ آیت اتری۔ (ابن کثیر) دراصل اس قسم کے اعتراضا ت وہ عوام کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے متنفر کرنے کی غرض سے کرتے تھے، ورنہ وہ بھی خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے الفاظ کہنا کتنی بڑی گستاخی اور کفر ہے۔ (قرطبی)2۔ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا: یعنی ان کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گستاخی اور رسولوں کو ناحق قتل کرنا، سب ان کے نامۂ اعمال میں درج کیا جا رہا ہے۔ قیامت کے دن ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور وہ عذاب حریق کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔
رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا :۔
مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر ابو بکر نے اپنی صحبت اور مال سے ممنونِ احسان کیا ہے ۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا ۔ لیکن ہمارا باہمی تعلق اسلامی بھائی چار اور محبت کا ہے ۔ مسجد میں ابو بکر کے دروازے کے علاوہ کوئی دروازہ کھلا نہ رہنے دیا جائے۔
0 Comments