یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

مفاد پرست لولے لمگڑے بہرے لیڈر امیر کارواں فرقہ پرستانہ مزاج،کفر کے فتاوے باز بن چکے ہیں۔ ہم وہ مسلمان بن چکے ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود۔

جنگل جیسا قانون

دیکھا اور سناہے کہ جب بھیڑیں جانور سفر پر ریوڑ کی صورت میں نکلتی ہیں تو سب سے کمزور بیمار نحیف ضعیف اور لاغر بھیڑ گلے کے آخر میں سر جھکائے زبان منہ سے لٹکائے لنگڑاتی ہوئی آہستہ آہستہ چل رہی ہوتی ہیں۔ سفر کے دوران اگر سامنے سے خدانخواستہ کوئی خون خوار دستہ یا کوئی آفت یا عذاب آجائے، راستہ بند ہو جائے یا ناقابل عبور چڑھائی آجائے یا کوئ درندہ حملہ آور ہوجائے توسارا گلہ پلٹ جاتا ہے جسکے بعد آخر میں چلنے والی وہی کمزور، لاغر اور نخیف بھیڑ بھییر میں کاروان بن جاتی ہے اور پھر ساری بھیڑیں اسے لیڈر مان کر سرجھکاے آہستہ آہستہ چلنا شروع کردیتی ہیں تا وقتیکہ کوئی دوسری آفت ان کو دوبارہ پلٹنے پر مجبور نہ کردے۔

لولے لنگڑے بہرے لیڈر امیر کارواں ہمارا مقدر؟

اس مثال لامثال کا تذکرہ اسلئے کیا کہ مجھے نہیں خبر کہ کونسی آفت اور عذاب اور کونسا بانجھ پن تھا جو ان کروڑوں مسلمانوں کے اس ریوڑ پر آن پڑا کہ انہوں نے اپنا رخ ہی بدل دیا اور ذہنی طور پر لولے لنگڑے بہرے اور نابالغ ہوگئے اور اسی لاغر بھیڑ کے مانند لوگ ہی میر کاروان بن گئے۔ یہ ہے ہمارا مقدر۔

ورنہ تو یہ خطہ ان اذہان او افکار کا متحمل نہ تھا اور نہ رہے گا  لیکن ٹھہریے، میں غلط سمجھا ہوں بلکہ یہ خطہ اور مظلوم و بے بس خطہ ان حالات کا متحمل ضرور اور بطریق اولی ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایسا آخر کیوں؟ اسلیئے کہ ہم مسلمان ہیں تو کیا ہوا؟ مسلمان تو شرافت کا بھرم رکھتا ہے؟ ہاں بالکل رکهتا هے. لیکن ہم ذرا الگ قسم کا بھرم رکھنے والے مسلمان ہیں۔ ہم ہیں فرقہ پرست مسلمان۔ ہم دیوبندی مسلمان ہیں۔ ہم بریلوی ہیں، ہم اہل حدیث ہیں، ہم شیعہ ہیں، اور ہم ہی غامدی مسلمان ہیں۔ بابا یہ مسلمانیت کیا بلا ہے؟ بھلا بات کرو تو سنی، شیعہ، غامدی، بریلوی، اہل حدیث ملحد کی کرو۔ بصورت دیگر کسی چیز کو ہم مسلمان اور علاقائی مسلمان منہ لگانے کو تیار ہر گز نہیں۔ ۔جہاں اس قسم کی عظیم الشان مسلمانیت کا روجہان رائج ہوجائے وہاں پھر خطہ مجبوراً سنگین حالات کا شکار ہو ہی جاتا ہے۔

خوشی منائیں یا ماتم کریں؟

بات کریں تو کس کی؟ روئیں تو کس کے نام؟ لکھیں تو کس کے لئے لکھیں اور کس شے پر لکھیں؟ کون سا نظام زندگی سیدھا سادہ ہے، سیاست کس کی کریں۔ فرقہ واریت کا دفاع کریں یا ماتم؟ لیکن کب تک اور کہاں تک کریں؟ جس قوم کے ایک فرد پر کفر کا لیبل لگنا نہایت ہی آسان ہو جائے وہاں مسلمانیت کا محظ بدن ہی رہ جاتا ہے روح کے بغیر

یہ ہے ہمارا مزاج؟

جہاں فتوی لگنا اور لگانا مزاج اور طبعیت شاطرہ کا اہم حصہ بن چکا وہاں فرقہ واریت کے اندھیرے اور نحوست کے بادل بچے بچے کو اپنے لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اور ان کو دیکھ کر یہود بھی  شرما جاتے ہیں۔

یہ ہیں ججمنٹل لوگ۔

لیکن ایک سوال میں اپنے آپ سے کرنے کی ہمت کر رہا ہوں کہ حضور آپ حضرات پیداشی اور خاندانی فتاوٰی نویس تھے یا بعد میں کوئی کورس کر ڈالا کہ لوگوں کو کافر اور گُستاخ بنانے کا اور اسلام سے نکال کر کفرستان پھنچانے کا؟

کیا شریعت اجازت دیتی ہے؟

کیا شریعت مطہرہ اس بات کی ایک فیصد بھی اجازت دیتی ہے کہ کسی کے کردارِ ظاہری کو دیکھ کر اسے اسلام سے نکال کر کفر کی راہ پر نکال دو؟ کیا اسلام جیسا پاکیزہ اور معتدل دین اس بات کی اجازت دے گا کہ ہری پیلی گلابی پگڑی والا کافر اورکدو اور حلوہ کو برا کہنے والا زندیق ہو؟ کیا علماء امت نے اپنے کردار سے یہ تاثر دیا کہ کل جب تم آؤ تو فتاویٰ کفر کے انبار لگادو؟ اگر ہاں تو پھر جیتے رہیں، نھیں تو پھر ٹھنڈے دل و دماغ سے سنیں۔

کبھی یہاں بھی کوئی رہبر تھا لیڈر تھا؟

بابا یہاں کوئی مولانا مودودی ہوتے تھے جن کی فکر کی روشنی آج تک لوگوں کو اندھیروں میں روشنی کا راستہ دکھا رہی ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی یوتے تھے جنکی باتیں دلوں پرلگی مہریں توڑدیتی تھی۔ مولانا احمد علی لاہوری تھے جن کی محفل پتھر کو پارس بنادیتی تھی۔ احتشام الحق تھانوی تھے جو بھٹکے ہوؤں کو شراب خانے سے لا کر مصلے پھ کھڑا کر دیتے تھے۔مفتی محمود جیسے عالم تھے جنہوں نے مغربی یلغار کو ایک بازو کی قوت سے روکا۔ جو مردہ روحوں کو زندہ کرنے۔کا کام کرتے تھے ۔ سید۔مظفر حسن تھے جنہوں نے زندگی میں کبھی شیعہ سنی کی تفریق پیدا۔نہ ہونے دی۔…… اگر یہی لوگ آپ کے بڑے تھے تو اب آپ بتائیے اور زور ایمانی سے بتائیے کہ آپ اپنے اکابرین سے کس قدر وفا نبھارہے ہیں۔ ؟ کیا یہ ان کی روحوں کے ساتھ مذاق نہیں تو کیا ہے؟

مسلمان کو نقصان مسلمانوں

جب بھی مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا تو مسلمانوں سے:– میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر یہ کہنے کی ہمت کرتا ہوں کہ اسلام کے خلاف جتنی نفرت اس دور میں اسلام ہی کے ذریعے پھلائی گئی ۔ مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابل برداشت بنا یا گیا، مدرسہ کو جتنا مدرسہ کے ذریعے قابل نفرت بنا یا گیا۔ اتنا پچھلے دو تین سو برسوں میں یہودیوں اور عیسایئوں کے بیانات خطبات اور تحریروں نے نہیں کیا۔ آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو آپ یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے۔

گھڑ کے مسائل گھر میں کیوں نہیں حل ہوتے؟

آخر کیوں ہماری باہر کی تلخی اندر کی تلخی سے مل کر زہر بن چکی؟ اور یہ زہر دل کی ہر حرکت کے ساتھ ہماری رگوں سے الجھتا اور سانسوں سے جھگڑتا ہے؟ ہم کیوں معاشرے کے بیوپاری بن چکے؟ روزانہ اس معاشرہ سے کڑواہٹ کیوں خرید تے ہیں؟ اور پھر اسی کڑواہٹ اورتلخی کو چند شرمندہ سانسوں کے بدلے اسی معاشرہ کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ صدافسوس ! وہاں ایسا ہی ہوگا جہاں ایک مولوی دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو توہین سمجھتا ہے۔ جہاں لوگ معمولی سا۔اختلاف برداشت نہیں کرسکتے۔ اپنی مسجد میں دوسرے لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت نہی دیتے۔ وہاں کے لوگ اسلامی روایات کی کیا خاک پاسداری کریں گے۔

اسلام اور مسلمان آج یہ دونوں الگ الگ ہورہے ہیں٫

اگر ہمت ہے:- جی ہاں اپنے آپ سے سوال کیحئے۔ کہ کیا یہ واقعی وہ اسلام ہے جس کی بنیاد آقاء نامدار صلی اﷲ علیہ وسلم نے رکھی تھی اور جسے بعد ازاں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے پوری دنیا میں پھیلایا۔ پوچھیئے اپنے آپ سے۔ کیا آپ کا اسلام طبقاتی تفریق مٹاتا ہے؟ گورے کالے کی تمیز ختم کرتا ہے؟ عربی، عجمی، دیوبندی، بریلوی اہل حدیث، غامدی، شیعہ کی دیواریں گراتا ہے؟ انسان کو انسان سمجھتا ہے؟ مظلوم کی آہ سے ڈرتا اورخدا کے قہرسے کانپتا ہے؟اگر جواب نفی میں ہے تو پھر آپ کون سا اسلام نافذ کرنے چلے ہیں سرکار؟ جس کے دامن میں تازہ ہوا کا کوئی جھونکا نہیں۔ اصلاح نہ ہی کوئی تبدیلی؟

لیکن ایک بات تو ہے ہی نا.! اور وه یه که ہم پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں اور ہربات کا جواب پتھر ہی سے دینا پسند کرتے ہیں۔

علامہ اقبال کا دل چیر دینے والا فرمان۔

وضع میں تم ہو نصاریٰ  تو تمدّن میں یہود! یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔

Categories: مسلمان

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *