Belonging to Crime

  • جرم اور جرم کا تعرف
  • Crime and its Introduction

جُرم ایک غیر قانونی اقدام ہے، جبکہ مجرم کئی غیر قانونی جرم کر سکتا ہے۔ جرم کی تکمیل کے لیے یہ ضروری ہے کہ مجرم کے مکرمانہ ذہنیت ہو یعنی مجرم کی نیت مجرمانہ ہو، جبتک کوئی اقدام مجرمانہ نیت سے نہ کیا جائے، یہ جرم جرم کے دائرے میں نہیں آئے گا۔

لوازمات جرم یعنی یہ جرم کے لیے معاون عُنصر کا کام کرتا ہے ۔ لوازمات جرم اس کے لیے مفید مواد بھی ہے ۔ یہ سب ہے لوازمات کا حصہ ہے ۔ یہ کل ہے ۔ یہ سب ضروری ہے اور یہ ایک مفید مواد بھی ہے ۔ یہ اس کا اضافی یعنی سر پلس حصہ ہے ۔ ۔ یہ جرم کا بائی پروڈکٹ بھی ہے ۔ جو جُرم کا مجرم ہے اس سے یہ فعل سرزد ہوئی ہو ۔ یعنی جرم کا فعل / عمل / ارتکاب لازمی ہے ۔

لیکن اس مفید جرم کے مواد کے ساتھ ساتھ اہم املاک کا بھی ہونا ضروری ہے ۔ … Belonging to Crime

ایک 1-: ہر مجرمانہ اقدام جرم ہے ۔

دو -2 : جرم عوامالناس کے حقوق کی خلاف ورزی کا نام ہے ۔

تین 3-: مجرم کو ریاست سزا دیتی ہے ۔ کوئی اور نہیں ۔

چار 4-:-ریاست اس میں ایک فریق ہوتی ہے ۔

پانچ 5-: جرم ایک کھولی دھاندلی ہے ۔

چھ 6-: مجرمانہ ذہنیت جرم کے لئے بہت ضروری ہے ۔

جرم کو یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے ۔ جوکہ جان بوجھ کر کیا

گیا ہو ۔ اور ملک/ ریاست/ سرکار کے فوجداری قوانین میں اس کی سزا مقرر ہو ۔ جرم عام طور پر عوام الناس کے حقوق کی خلاف ورزی تصور ہوتا ہے ۔ اور ریاست اسے تعزیری کاروائی کے زریعے پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے ۔سزا دیتی ہے ۔

جرم معاشرے کے مفادات یا اپنے ضمیر کے خلاف ایک بات یا کسی شخص کا عمل ہے ۔ جرم رائج الوقت قانون کی خلاف ورزی ہوتا ہے ۔ جوکہ بالغ شخص کرتا ہے ۔ مجرمانہ ذہنیت کے ساتھ جرم کرتا ہے ۔ جرم کرنے پر سزا دی جاتی ہے ۔ جرم کے ارتکاب سے / جرم کے کرنے سے ۔ پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے ۔ اس موضوع کے لیے ایک الگ شعبہ فوجداری یا جُرمیات ہے ۔ جو اس کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے ۔ علم جرائم یا جرمیات اقتصادی ، معاشرتی اور نفسیاتی پہلووں کا مطالعہ کرتا ہے ۔ کیوں کہ ارتکاب جرم میں ایسے حالات مجرم پر ہراہ رست اثر انداز ہوتے ہیں

جرم ایک غلط قدم ہے ۔ جو مجرم کے حوالے سے قانون شکنی سے وجود میں آتا ہے ۔ کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر مجرم نہیں ہوتا ۔ نامسائد حالات کی ٹھوکریں وقت کی چیر دستیاں انسان کو شریف سے مجرم بناتی ہے ۔ انسان بلندیوں سے پستیوں میں گر پرتا ہے اور معاشرہ اس کی کردار پر نا پسندگی کی مہر لگا دیتا ہے ۔ پھر حالات انسان کو خود غرض بنادیتے ہیں ۔ اور ایک شریف انسان پختہ مجرم بن جاتا ہے ۔ اور اندرونی کیفیت اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ہے وہ شریف بن کر رہنا چاہتا ہے لیکن دوسرے لوگ اس کو شریف سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں اور وہ یوں مجرم سے اشتہاری مجرم بن جاتا ہے ۔ جب ایک شخص دوسرے شخص کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کا حق غصب کرتا ہے ۔ اس کی جائیداد تباہ کرتا ہے ۔ قتل غارتی کرتا ہے ۔ ۔ بدلے میں مقتول کے ورثہ کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ انتقام لیتا ہے ۔ بدلہ کی آگ میں مبتلا ہوتا ہے ۔

شروع شروع میں انصاف لوگ خود بدلہ لے کر کرتے ہیں ۔ اس کی واضع مثال اپنے ہی ملک کے گاوں دہات میں ملتی ہیں ۔

جرمنی میں 98 عیسوی تک یہی نظریہ رائج تھا ۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا ذاتی انصاف کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوتا گیا ۔

پُرانی رویش ختم ہوئی اور ریاست کت وجود کے ساتھ ہی ذاتی انصاف لینے کا کھیل ختم ہوا ۔ ریاست کے قوانین نے مجرمان کو سزا دینے کا راستہ اختیار کیا اور یوں جرم اور سزا کا نظریہ ریاست کے حوالے سے وجود میں آیا ۔ جرم کرنا ایک اور بات ہے اور اس پر سزا دینا ایک دوسرا مرحلہ ہے ۔ جب کسی شخص کو پکڑتے ہیں جس نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہو تو ایسے شخص کو ملزم کہتے ہیں ۔ مجرم نہیں کہتے ہیں ۔ اور جس قانون کی اس نے خلاف ورزی کی ہوتی ہے اس کو الزام کہتے ہیں ۔

شہادتیں جمع کرنے کے بعد جب ملزم کا مقدمہ کسی عدالت مجاز میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ تو عدالت گواہیاں طلب کرتی ہیں ۔ پوری تحقیق ازسر ہو کرتی ہے ۔ تمام گواہان کا بیان ملزم کی موجودگی میں لیا جاتا ہے اور جب بعد از ریکارڈ کرنے شہادت الزام ثابت ہوجائے تو الزام جرم میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اور ملزم کو اب مجرم کہا جانے لگتا ہے ۔

کسی بھی شخص کو اس وقت تک مجرم تصور نہیں کیا جاتاہے بلکہ اس کو بے گناہ تصور کیا جاتا ہے ۔ بے قصور سمجھا جاتا ہے ۔ جب تک کہ اس پر لگا ہوا الزام عدالت میں ثابت نہ ہوجائے ۔ اگر ملزم دوران سماعت بے گناہ پایا جائے تو اسے عدالت بری کر دیتے ہیں ۔

کوئی فعل یا ترک فعل اگر قانوناّ منع ہے تو جرم یہ بلکل جُرم ہوگا اور وہ بھی جب رائج الوقت قانون اس کی اجازت دیتا ہو ۔ اس جرم پر قانون بنا ہوا ہو ۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *